2 yrs ·Translate

دعا کاظمی کیس
اک ایسے کیس پہ کیا لکھا جائے کہ جو پیاز کی مانند لچھے دار ہو۔
لڑکی کیونکہ ایک مسلک کی ہے اور کراچی کی ہے تو آپکو کراچی اور اس مسلک سے تعلق رکھنے والے اکثر دہائی دیتے ملیں گے کہ ظلم ہو گیا۔ لڑکی کیونکہ ایک مسلک کی ہے تو اس مسلک کے مخالفین آپ کو چسکے لیتے نظر آئیں گے۔ ایک لبرل خاتون کی پوسٹ نظر سے گزری جنکو بہت دکھ تھا کہ ایسے “چمونے” کے ساتھ لڑکی بھاگی ہے۔ کئی پوسٹیں پڑھنے کے بعد فائنل تاثر ہے کہ لڑکا یتیم، لیول سے نیچے، چمونا، غیر سید، غریب، چپڑاسن کا بیٹا اور پنجابی ہے، تو ہائے دعا نے یہ کیا کیا۔
بطور باپ کے دیکھوں تو دل درد سے بھرتا ہے، بطور وکیل دیکھوں تو عدالت اور کیا کرتی؟ یہ کیس دراصل ہمارے سماج میں موجود بنیادی تضاد اور قانونی مذاق کی کلاسک مثال ہے۔ آپ بہتی پیپ پہ تبصرے کرتے جا رہے ہیں، گلا سڑا پھوڑا بھی تو دیکھئیے۔

شادی کی ایک مناسب عمر کیا ہے ہم اب تک یہ ہی طے نہیں کر پاتے۔ پنجاب سولہ، سندھ اٹھارہ کا تضاد کے ساتھ “وقوعہ چننے” کی بہترین دعوت دے رہا ہے۔ اٹھارہ کی بھی کیا اتنی سمجھدار ہوتی/ہوتا ہیں کہ ہارمونز کی شدت میں عقلی فیصلہ فرما لیں؟ یہ ہارمونز یا محبت تو بڑی عمر والو کی مت مارے پھرتے ہیں۔ لیکن صاحب کوئی کم از کم عمر ملکی سطح پہ تو طے فرما لیں کہ جب بنا والدین بھی سوچا سمجھا فیصلہ کیا جا سکتا ہو۔ عمر بڑھانے کی بات کریں تو آپ کا ملا مذہب سے چھوٹی عمر کی شادی کی تاویل لا کر بے بس کر دیتا ہے۔ کسی مخصوص عمر تک ولی کی شرط کی بات کریں تو لبرل کو دندل پڑ جاتے ہیں۔

بچے بچیوں کو آپ نے بطور سماج کبھی ذمہ داری سمجھا ہی نہیں۔ والدین انکو سکول کی تعلیم،دینی تعلیم، چار پیسے خرچ کر سمجھتے ہیں سب اچھا ہے۔ بچے آپ کے پیسوں سے موبائل خرید کر جو “ٹک ٹاکیاں” فرما رہے ہیں پھر اسکے نتائج بھی نکلیں گے۔ اکیسویں صدی میں اگر آپ بچوں کو دوست بنا کر انکے شب و روز میں شامل نہیں ہیں تو روایتی ماں باپ سے عدالتیں بھری پڑیں ہیں جہاں روز کوئی نا کوئی دعا آ کر بیان دیتی ہے کہ جی اپنی مرضی سے گئی تھی۔ ہمارے پس چائلڈ پروٹیکشن کے مناسب ادارے تک نہیں جو تھانیدار ماں باپ سے کر جابر استاد اور کسی جنسی بھیڑیئے رشتے سے لے کر سیکس آفینڈر سماج سے ان پھولوں کا تحفظ کر سکیں۔ البتہ کوئی نا کوئی ایکٹ کسی اچھے وکیل کی سیلف سے شاید پڑا دھول چاٹ رہا ہو گا۔

ہمارے قانون کا تماشہ بھی اچھا لگا اس کیس میں۔ سوچئیے سامنے ایک بچی ہے، جسکے والدین کے پاس شادی سرٹیفیکیٹ ہے کہ شادی سولہ سال قبل ہوئی لیکن عدالت “ایج سرٹیفیکیٹ” کی بنیاد پہ کہہ رہی ہے کہ دعا جس کے ساتھ جانا چاہے چلی جائے۔ عدالت میں رٹ حبس بیجا کی تھی، لڑکی برآمد ہو گئی اور بیان دے دیا کہ مرضی سے گئی۔ اب عدالت کے ہاتھ بندھے ہیں کیونکہ قانون کہتا ہے کہ اپیل کورٹ “فیکٹ فائنڈنگ” نہیں کر سکتی۔ چنانچہ شادیبسرٹیفیکیٹ ، ایج ویریفیکیشن یہ سب کچھ ٹرائل کورٹ میں پیش ہو گا۔ درست حجور، آپکی آنکھ پہ آئین و نظیر کی پٹی بندھی ہے کیا کریں۔ لیکن آپ بچی کو کسی ممکنہ دباو سے نکالنے اور کسی ممکنہ خطرے سے بچانے کیلئیے اسے تین ماہ دارلامان بھیج کر ٹرائل کورٹ کو کوئی ڈائریکشن تو دے ہی سکتے تھے۔ اب موقع بہ موقع بوقت ضرورت قانون کانا ہوتا ہم دیکھتے رہے ہیں، سو آج بھی اندھے سے کانے ہو جاتے۔

اگر آپ اس کیس سے مسلکی رنگ، میڈیا ٹرائل نکال دیں تو یہ ان ہزاروں کیسوں میں سے ہے جنکو وکلا روز عدالتوں میں دیکھتے ہیں اور قوانین میں موجود مضحکہ خیز تضادات سے واقف ہیں۔ آپ جب تک بچوں کو اپنے سماج اور ریاست کی ذمہ داری بنا کر ان کیلئیے قانون سازی نہیں کریں گے، سماجی اصول وضع نہیں کریں گے، خانگی روایات مرتب نا کریں گے، تب تک آپ اپنے اپنے مفادات کیلئیے کسی دعا، کسی رنکل کماری کی حمایت و مخالفت کرتے رہیں گے لیکن قانون کی دیوی اندھی لیٹی رہے گی۔

عرب شریف کے پیرو پہلے حیض پہ شادی والے تو چلو تھے ہی۔ ویسے “جن کی پیروی” کا شوق نیو لبرلز کو بہت زیادہ ہے انکی اطلاع کیلئیے سولہ سال کے بچے بچی کو حق ہے کہ وہ کبھی بھی گھر چھوڑ کر کسی کے ساتھ رہنا شروع کر دے۔ سوائے اسکے کہ اسے خطرہ ہو، ریاست کوئی مداخلت نہیں کر سکتی۔ چناچہ ہور چوپو۔

بچے پرائرٹی بنائیے صاحب، بطور والدین ، بطور سماج اور بطور ریاست۔
انعام رانا

image