International Mother's Language Day

ہر سال 21 فروری کو ماں بولی کا دن منایا جاتا ہے اسی مناسبت سے یہ بلوگ تشکیل دیا گیا ہے

آج 21 فروری کا دن جو کے عالمی سطح پر مادری زبانوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔پاکستان میں کم ہی لوگ اس دن کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔اور نا ہی اس دن کو منانے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔پاکستان بالخصوص پنجاب میں یہاں کے لوگ اپنی زبان اور کلچر سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔غور کریں تو پنجاب وہ بدنصیب صوبہ ہے جہاں 90% لوگ پنجابی بولتے اور سمجھتے ہیں لیکن سرکاری طور پر اس زبان کو کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کی سرپرستی حاصل نہیں۔ نا ہی سکولوں اور نا ہی کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے سرکاری دفاتر میں آفیسرز پنجابی زبان بولتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔

ستم ظریفی دیکھیں پنجاب اسمبلی پاکستان کی واحد اسمبلی ہے جہاں پر اس صوبے کی مادری زبان بولنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے اگر کسی ممبر اسمبلی نے پنجابی میں بات کرنی ہو تو سب سے پہلے سپیکر سے اجازت لینا پڑتی ہے۔یہاں جاہل سے جاہل ایم پی اے بھی اردو کو ترجیح دے گا اظہار رائے کرنے کیلئے۔پنجابی وہ لاوارث زبان ہے جس کا شمار دنیا کی نویں (9th) بڑی بولی جانے والی زبانوں میں ہوتا ہے ۔لیکن پاکستانی پنجاب کے پنجابی اسے بولتے اور اپنے بچوں کو سیکھنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔حقیقت میں پنجابی بہت رچ کلچر رکھتے ہیں۔پنجابی زبان وہ زبان ہے جس نے پورے برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا پرچار کرنے میں سب سے زیادہ کلیدی کردار ادا کیا۔میاں محمد بخش خواجہ غلام فرید۔بابا بلھے شاہ۔ میاں وارث اور دوسرے شعراء نے اپنی شاعری اور صوفیانہ کلام کے ذریعے لوگوں اسلام کی طرف راغب کیا اور معاشرے میں امن اور بھائی چارے کا درس دیا۔

کہا جاتا ہے کے اکیلے داتا گنج بخش علی ہجویری المعروف داتا صاحب نے برصغیر میں دس لاکھ لوگوں کو مسلمان کیا اور بدلے میں ہم نے اپنے نظام تعلیم سے ایسے عظیم مذہبی سکالر کو سلیبس سے باہر کر دیا۔پنجاب کی بات کریں تو چاہے گجرات کے چوہدری ہوں جاتی عمرہ کے میاں برادران یا موجودہ دور حکومت کے سائیں بزدار ہوں انہوں نے پنجاب دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی زاتی مفادات کی خاطر پنجاب کو توڑنے اور تقسیم کرنے کے نئے نئے فارمولے پیش کیے جا رہے ہیں جیسے پنجاب ان کی باب کی جاگیر ہو ۔جہاں لفظ پنجاب یا پنجابی آئے اور ان کے ساتھ سوتیلا سلوک نا رکھا جائے یقینی طور پر یقین سے باہر ہے۔پنجاب کے ہیروز کو آرٹیفیشل ہیروز کے ساتھ بدلا جا رہا ہے آج ہمارے سکولوں اور کالجوں میں ( غوریوں۔ ابدالیوں اور غزنویں) کو قومی ہیروز کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے اور سب سے زیادہ پنجابیوں کا برین واش کرنے میں مطالعہ پاکستان کردار ادا کر رہی ہے ۔مطالعہ پاکستان میں آپ کو ان آرٹیفیشل ہیروز کے قصے جگہ جگہ پڑھنے کو ملیں گے ۔آج ہمارے مین سٹریم اردو میڈیا اور مطالعہ پاکستان نے لیٹیروں جنہوں نے پنجاب پر کئی حملے کیے ان کو ہیرو اور جن لوگوں نے پاکستان کی آزادی کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں ان ہیروز کو لیٹرا ثابت کر دیا ہے۔آپ کو پنجاب کے اصل ہیروز (دلا بھٹی،رائے احمد کھرل، نظام لوہار اور بھگت سنگھ ) کا نام نا تو مطالعہ پاکستان کی کتاب میں پڑھنے کو ملے گا اور نا کبھی ہمارے اردو میڈیا میں سننے کو ملے گا۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی میں بات کر رہا تھا مادری زبانوں کے عالمی دن پر کیا وجہ ہے کہ ہم دن بہ دن پستی کی طرف جا رہے ہیں اپنے کلچر سے دور ہوتے جا رہے ہیں گھروں میں مائیں اپنے بچوں کو مادری زبان اور اپنا دیسی کلچر سیکھانا کی بجائے مغربی تہذیب اور دوسری زبانیں سیکھانےپر زیادہ توجہ دے رہی ہیں اسی لیے آج ہم دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں سے تعلیم اور ترقی کے معملے میں بہت پیچھے ہیں ۔بہت سے ملکوں نے بچوں کو بنیادی تعلیم اپنی مادری زبان میں دی آج وہ ملک بھی ترقی کر کے ہم سے بہت آگے ہی چین اور جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی مادری زبان بولنے میں فخر محسوس کریں جیسے ہمارے ہی ملک کے دوسرے صوبوں کے لوگ کرتے ہی آپ سندھ،بلوچستان یا سرحد کے کسی بھی علاقے میں چلے جائیں لوگو آپ مقامی زبان میں ہی بات کرنے کو ملیں گ۔لیکن پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جہاں لوگوں کو اپنی ماں بولی پنجابی زبان بولنے میں شرمندگی محسوس ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔!

 جہڑے آکھن وچ پنجابی، وسعت نہیں تہذیب نہیں؛ پڑھ کے ویکھن وارث، بلھا، باہو، لال پنجابی دا۔

 

 

 

 

تحریر طارق رانا 

عنوان۔۔ ماں بولی کا عالمی دن اور ہمارا معاشرہ


Tariq Mehmood

1 Blog posts

Comments