ایک فیصلہ ، جس نے نسلیں بچا لیں!

ابو جی سے روزانہ فون پر بات ہوتی ہے اور روزانہ ہی اُن سے کرنے والی میری اتنی ساری باتیں ہوتی ہیں کہ کوئی پاس بیٹھا سُنے تو سوچے جانے کتنے دنوں بعد بات ہو رہی ہے ، <

ابو جی سے روزانہ فون پر بات ہوتی ہے اور روزانہ ہی اُن سے کرنے والی میری اتنی ساری باتیں ہوتی ہیں کہ کوئی پاس بیٹھا سُنے تو سوچے جانے کتنے دنوں بعد بات ہو رہی ہے  ،

اُن سے بات کرتے ہوئے میں ہمیشہ بات سے بات نکالتی ہوں اور پھر دیر تک اُنہیں سُنتی ہوں بعض اوقات وہ باتیں بھی دوبارہ پوچھتی ہوں جو اُنکے سامنے ہی گھر کا کوئی دوسرا فرد مجھے بتا چُکا ہوتا ہے ایسے میں ابو جی مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں

“ تمہیں باتیں سُننے کا بہت شوق ہے ، ہے ناں ؟ ابھی تو ساری بات بتائی گئی ہے۔”

اور میں مزے سے جواب دیتی ہوں 

“ابو جی ، باتیں سُننے کا نہیں مجھے آپ سے باتیں سُننے کا شوق ہے اسلئیے بیشک دس لوگوں سے بھی سُن چکی ہوں لیکن آپ مجھے خود تفصیل سے بتائیں”

اور اُنہیں دوبارہ تفصیل بتانی ہی پڑتی ہے 

خیر اسی طرح کل ابو جی سے بات ہو رہی تھی ، ہم دورِ حاضر میں خونی رشتوں پر مادیت کے حاوی ہونے کی بات کر رہے تھے جب ابو جی نے بتایا 

“ ہم حیدرآباد میں تھے ایک دن جب گھر آ کر کھانے وغیرہ سے فراغت ہوئی تو تمہاری امی نے بتایا کہ  پنجاب سے فلاں رشتہ دار کا خط آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ مسعود اور شبیر ( فرضی نام ) اور ان دونوں بھائیوں کی بیویوں کے آپس کے تعلقات نہایت گھمبیر ہو چلے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ کسی روز مرنے مارنے تک بات نہ پہنچ جائے

ساتھ ہی تمہاری امی نے مجھے خط لا کر دیا جسے پڑھ کر حالات کی سنگینی کا مزید احساس ہوا کہ دونوں بھائیوں کے درمیان اتنے بڑے تنازعے کی وجہ صرف زمین تھی جس سے اپنی اپنی انا کے باعث کوئی بھی دستبردار ہونا نہ چاہتا تھا 

لہذا میں نے اور تمہاری امی نے فوراً پنجاب روانہ ہونے کا فیصلہ کیا تاکہ کچھ صُلح صفائی کروائی جا سکے 

وہاں پہنچے تو معاملات خط سے بھی کہیں زیادہ پریشان کن دکھائی دئیے 

دونوں فریقین کو سمجھایا بجھایا کہ دنیاوی چیزوں پر جھگڑا درست نہیں ، 

سانس کا کیا اعتبار ، اگر آج نہ رہے تو یہ سب چیزیں جن پر جھگڑا کیا جا رہا ہے دھرا کا دھرا رہ جائے گا

لیکن دونوں ہی بات ماننے اور پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے ، اور کچھ بعید نہ تھا کہ کوئی بڑا قدم اُٹھا لیں 

ایسے میں ہم دونوں جو اتنی دور سے صرف دونوں گھرانوں میں صُلح کروانے کی نیت سے گئے تھے کچھ اور سوچنے لگے کہ اچانک میرے ذہن میں تدبیر آئی اور ہم دونوں نے مسعود کے گھر جا کر کہا 

“شبیر اور اُسکی بیوی نے ہماری بات مان لی ہے کہ زمین جائداد کیلئیے خون خرابہ یا لڑائی جھگڑا اچھے لوگوں کا وطیرہ نہیں اور یہ بھی کہ وہ آپکو راضی کرنے اور اب تک آپ سے کئے گئے ہر اُس عمل سے جس سے آپکا دل دُکھا ، معافی مانگنے کیلئیے آپکے گھر آنا چاہتے ہیں”

اب اتنا سُننا تھا کہ وہ ایک دم چونک گئے اور پہلو بدل کر میاں بیوی نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر کچھ دیر بعد کہا

“نہیں کوئی بات نہیں ، اگر وہ چھوٹے ہو کر ایسا سوچتے ہیں اور معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں تو آج ہم بھی اپنا دل صاف کر کے اُنکے گھر جانے کو تیار ہیں ویسے بھی ہم بڑے ہیں تو میرا خیال ہے ہمیں پہلے ہی چھوٹوں کو معاف کر دنیا چاہئیے تھا”

میں نے تمہاری امی نے اُنکی بات پر الّلہ کا بیشمار شکر ادا کیا اور یہی بات شبیر کو بھی جا کر کہی کہ مسعود اور اُسکی بیوی نے ہماری بات مان لی ہے اور وہ زمین جائداد پر کوئی بھی خون خرابہ نہیں چاہتے اور بیشک وہ بڑے ہیں لیکن دل سے آپکی کی گئی تمام غلطیوں کو بھلا کر معاف کرنا اور آپکے گھر آ کر آپ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔”

ردِّ عمل اور جواب یہاں بھی بالکل وہی تھا کہنے لگے 

“ نہیں وہ بڑے ہیں اگر وہ ہمیں منانے آئیں گے تو یہ ہمارے لئے باعثِ شرم ہو گا آپ پلیز اُنہیں منع کریں ہم میاں بیوی خود اُنکے پاس جا کر اپنی غلطی کوتاہی کی معافی مانگیں گے۔”

لہذا ہم نے اُسی جگہ پر جسکا جھگڑا تھا چاروں میاں بیوی کو اکھٹا کیا اور ایک بھی شکوہ شکایت کئے بغیر چاروں نے ایک دوسرے سے معافی مانگی گلے ملے پچھلی کوئی بھی بات نہ دوہرا نے کا عزم اور آئندہ کبھی بھی زمین جائداد پر نہ جھگڑنے کا نہ صرف وعدہ کیا بلکہ  پھر اس وعدے پر قائم بھی رہے

اور یوں الّلہ کی طرف  سے دل میں ڈالے گئے ایک خیال نے دونوں بھائیوں کے گھرانوں کو کسی شدید نقصان سے بچا کر حقیقتاً دوبارہ بھائی بھائی بنا ڈالا “

#FakhraGul


Fakhra Gul

3 Blog posts

Comments