. کاش آپ یہ پڑھ لیں
کبھی آپ لمبے سفر پر ہوں بارہ چودہ گھنٹے کا ہوائی جہاز کا سفر یا پھر چھ آٹھ گھنٹے کی اڑان پھر دوچار گھنٹے کا وقفہ پھر اتصالی اڑان تو گھر پہنچتے پہنچتے بیس بائیس گھنٹے بیت گئے ہوں یا پھر کسی ہنگامی حالت میں کسی اپنے کے لیے بنا وقفہ اتنا عرصہ ہسپتال میں بھاگ دوڑ کرتے گذر گیا ہو اور آپ دانت صاف نہ کر پائے ہوں. تواپ نے محسوس کیا ہوگا کہ آپ کے دانت معمول سے ہٹ کر کچھ کھردرے سے ہورہے ہیں.
ایسے میں اگر ٹوتھ پک سے دانتوں میں خلال کیا جائے تو ایک نرم سا سفید مادہ دانتوں سے برآمد ہوتا ہے. یہ مادہ plaque پلیک کہلاتا ہے…. پلیک کیا ہے. بس یوں سمجھ لیں صرف جراثیم ہی ہیں. روئے زمین پر کسی شے کے ایک گرام وزن میں زیادہ سے زیادہ جراثیم اگر کہیں پائے جاتے ہیں تو وہ پلیک ہی ہوتا ہے.ایک گرام پلیک میں دس ارب سے زائد جراثیم ہوتے ہیں.
اچھا اگر اس پلیک کو کچھ عرصہ کے صاف نہ کیا جائے تو یہ خوراک میں موجود نمکیات جیسے میگنیشیم، کیلشیم، میگنیز اور زنک وغیرہ کے ساتھ مل کر ایک سخت سی تہہ میں تبدیل ہوجاتا ہے. اس تہہ کو ٹارٹر کہتے ہیں اور یہ ٹارٹر کی تہہ پھر دانت صاف کرنے والے برش سے اتارنا ناممکن ہوتا ہے اس کی صفائی کے لیے دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جانا مجبوری بن جاتا ہے.
ہمارے منہ میں سات سو اقسام کے کے اربوں جراثیم ہر وقت موجود رہتے ہیں. جیسے ہی ہم کچھ کھاتے ہیں، سمجھیں انہیں بھی کھانا مل گیا. فوراً شروع ہوجاتے ہیں اپنے اپنے کام. بیشتر جراثیم غذائی اشیاء جیسے شکر یا کاربوہائیڈریٹس وغیرہ سے اپنی غذا حاصل کرنے کے دوران اسے تیزابی مادے جیسے لیکٹک ایسڈ میں تبدیل کرتے جاتے ہیں. کھانے کے بعد ہمارے منہ کی پی ایچ ( تیزاب کی مقدار جانچنے کا پیمانہ ) سات ہوتی ہے جس کا مطلب کہ نہ تیزابی نہ ہی اساسی گویا بالکل نیوٹرل.
لیکن جیسے جیسے بیکٹیریا لیکٹک ایسڈ بناتے جاتے ہیں پی ایچ کم ہوتی جاتی ہے. حتی کہ کچھ وقت میں جب یہ ساڑھے پانچ پر پہنچ جاتی ہے تو بس پھر سمجھیں جراثیموں کے لیے بہترین ماحول مہیا ہوگیا. ساڑھے پانچ پی ایچ، سینتیس درجے سینٹی گریڈ اوربہت سی نمی یہ جراثیموں کی افزائش کے لیے ایک طرح کا مثالی ماحول ہے. ایسے میں یہ فقط بیس منٹ میں اپنی تعداد دوگنا تگ بڑھا سکتے ہیں. جیسے جیسے ان کی تعداد بڑھتی ہے ویسے ہی منہ میں اور خاص طور پر دانتوں کے ساتھ لیکٹک ایسڈ بڑھتا ہے.
اب یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ دانت کیلشیم سے بنے ایک نامیاتی مرکب سے بنے ہیں. اور کیلشیم لیکٹک ایسڈ کے لیے خاص وابستگی رکھتا ہے، جیسے پی ایچ کم ہوتی ہے کیلشیم دانتوں سے نکل کر کیلشیم لیکٹیٹ بناتا ہے اور دانتوں کی سطح پر باریک سوراخ ہوجاتا ہے. یہی عمل دانتوں کی تباہی کا نقطہ آغاز ہے. اوائل عمری میں تو اس کیلشیم کی کمی دانتوں میں کسی طور پوری ہوتی رہتی ہے گرچہ سو فیصد نہیں لیکن تھوڑی بڑی عمر کے لوگوں میں قدرتی طور پر دانتوں سے اس طریقے سے ضائع ہونے والے کیلشیم کا مداوا قریب ناممکن ہوتا ہے اور نتیجہ دانت ناکارہ ہونے کی صورت میں نکلتا ہے.
اچھا اس سارے عمل میں مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ساری کارروائی ان بیکٹیریاز یا جراثیموں کی کارروائی ہے جو ہمارے دوست بیکٹیریا ہیں. جبکہ سات سے سے زائد اقسام کے ان جراثیموں میں جو دودرجن کے قریب خطرناک یا نقصان پہنچانے والے بیکٹیریاز ہیں اس دوران وہ کیا کررہے ہوتے ہیں. تو جناب وہ بھی اسی رفتار سے بڑھتے ہیں. ان میں سے کچھ گلے اور مسوڑوں کی سوزش کا باعث بنتے ہیں.
آپ میں سے اکثردوستوں کا تجربہ رہا ہوگا کہ اگر دانت صاف کرنے میں غفلت ہوجائے تو زبان یا مسوڑوں پر چھالے بن جاتے ہیں وہ سب انہیں دشمنوں کی کارستانی ہوتی ہے. اسی طرح کئی دفعہ ہم سو کر اٹھتے ہیں تو ہمارا ایک طرف کا گلا دکھ رہا ہوتا ہے. اس کی وجہ بھی یہی رہی کہ گلے میں سوزش پیدا کرنے والے جراثیموں کی رات بھر میں خوب افزائش ہوئی، اور جیسے ہی ہم نے نیند کی حالت میں کروٹ پرلیٹے ہوئے لعاب نگلا یہ اس طرف والے گلے تک پہنچ گئے جو نیچے کی اور تھا، نتیجہ صبح تک اس طرف کے گلے میں سوزش اور درد شروع ہوچکی ہوتی ہے.
یہ تو تھے سوزش کرنے والے بیکٹیریا. اب ایک دشمن کا بطور خاص ذکر ضروری ہے اس کا نام ہے پورفیروموناس جینجیوالس Porphyromonas gingivalis. منہ میں اور دانتوں میں ہوئی سو میں سے پچاسی خرابیوں کا یہ اکیلا جراثیم ذمہ دار ہے یا ان کا حصہ ہے . یہ خاس طور پر عضلات پر حملہ آور ہوتا ہے اور انہیں کمزور کرکے ناکارہ بنانے کی کوشش کرتا ہے. دانتوں کو پکڑ کر رکھنے والے مسوڑوں کے عضلات کو کمزور کرکے دانتوں کو گرانے میں سب سے زیادہ کردار اسی کا ہے. لیکن منہ اور دانتوں سے بڑھ کر اس کی خطرناکی کہیں زیادہ ہے. یہ منہ میں کسی زخم کے ذریعہ خون میں شامل ہوجاتا ہے. اور پھر اس کی تباہ کاریاں ہولناک ہیں.
خون میں شامل ہوکر یہ سب سے پہلے خون کی ترسیل کرنے والی شریانوں کو نقصان پہنچاتا ہے. حال ہی میں ہوئی ایک اعلی سطحی طبی تحقیق کے مطابق ایک ہسپتال میں آئے دل کی شریانوں کے مریضوں کی سو فیصد تعداد میں یہ بیماری اسی جرثومے پی جینجی والس کی وجہ سے تھیں. دل اور شریانوں کی بیماری کے علاوہ جوڑوں کے درد کی بیماری rheumatoid arthritis کا سبب بنتا ہے.
بات یہیں تک نہیں رکتی. اگر اس کی زیادہ مقدار خون میں شامل ہو تو ایسے میں کسی چھینک کے نتیجے میں یہ دماغ میں بھی داخل ہوسکتا ہے. ایسی صورت میں یہ خرابی یاداشت کی بیماری Alzheimer’s disease کا باعث بنتا ہے. اس کے علاوہ بعض شواہدات کے مطابق یہ برین ہیمرج کا باعث بھی بنتا ہے.
جس رفتار اور تواتر کے ساتھ منہ میں پائے جانے والے جراثیموں کے سبب مختلف جسمانی بیماریوں کے شواہدات موصول ہورہے ہیں وہ وقت دور نہیں جب جدید سائنس باآواز بلند یہ دہائی دے رہی ہوگی کہ دانت دن میں دو بار نہیں کم از کم پانچ بار صاف کرنا چاہئیں. تب ہم فخر سے شور مچارہے ہوں گے کہ ہمارے آقا نے تو ڈیڑھ ہزار سال قبل ہی یہ حکم دے دیا تھا کہ ہر نماز سے پہلے مسواک کرنا ضروری ہے. وہ الگ بات ہے کہ عمل ہم نے پہلے بھی نہیں کیا اور اب بھی نہیں کریں گے….
( جاری ہے )
#ابن_فاضل
#ibn_e_fazil