پاک و ہند دونوں طرف انتہا پسند جنونی ہندو اور مسلم اہل مذہب کے ہاتھوں انسانیت مجروح ہے۔ یہاں احمدیوں کی قبروں کے کتبے توڑے جا رہے ہیں تو دوسری جانب حجاب سے روکا جا رہا ہے۔ ایک طرف مودی حکومت مذہبی شدت پسندی میں پیش پیش ہے تو دوسری جانب عمران حکومت سے ایسے معاملات میں ہرگز پیچھے نہیں ہے۔
ہاں ایک بات، ابھی تک کسی ہندو متشدد نے خودکش دھماکہ نہیں کیا، ہم پاکستان میں ایسے سینکڑوں دھماکوں کا سامنا کر چکے ہیں۔
مذہبی جنونیت، انتہاپسندی ایک لعنت ہے، اس سے چھٹکارے سے ہی دونوں طرف امن آ سکتا ہے۔
امجد عباس
کیا اسلام میں بچوں کو پیدا کرنے کے حوالے سے روک ٹوک لگانا منع ہے؟ اور کیا یہ خالص مذہبی معاملہ ہے؟ اس بابت پوچھے گئے ایک سوال کا مختصر جواب:-
اس بابت اختصار سے اتنا عرض کیا جا سکتا ہے کہ نہ شادی کرنا فرض ہے نہ بچے پیدا کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید میں بھوک کے ڈر سے بچوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچے پیدا کرنا بھی فرض ہے۔ آیت پہلے سے موجود بچوں کو قتل کرنے سے منع کرتی ہے۔
شادی کرنا، بچے پیدا کرنا، ان میں وقفہ کرنا، یہ سب انسانی اختیاری معاملات ہیں۔ فرد یا ریاست اس حوالے سے مناسب پلاننگ کر سکتے ہیں؛ البتہ اس حوالے سے جامع اور ذمہ دارانہ انداز سے بنائی گئی پالیسیز مؤثر ہوں گی جبکہ پاکستان میں ایسا کچھ ہوتا نہیں ہے۔ یہاں پہلے سے موجود قوانین متوازن نہیں ہیں۔ ایک اور بات بھی ملحوظ رہے کہ بچوں کی تعداد سے زیادہ اہمیت ان کی تربیت کی ہے۔ غیر تربیت یافتہ والدین کا ایک غیر تربیت یافتہ بچہ بھی اس سماج کے لیے نقصاندہ ہے اور تربیت یافتہ پانچ بچے بھی شاید دھرتی پر بوجھ نہ ہوں۔ بہرکیف بچوں کی پیدائش، ان کی تعداد، ان میں وقفہ جیسے امور خالص انسانی اور سماجی ہیں، انھیں اس پہلو سے دیکھنا ہوگا۔
مذہب میں عمومی نوعیت کی کلی اخلاقیات مذکور ہیں جیسے شادی کرنا اچھا شمار کیا گیا ہے، ایسے ہی بچوں کو بھوک کے ڈر سے قتل کرنے سے روکا گیا ہے۔ اِن تعلیمات کی رو سے انسانی افزائشِ نسل بھی مستحسن عمل ہے، اسے جاری رہنا چاہیے۔
امجد عباس