پروفیسر صاحب بولے ان کے ملک میں دلہن کو خاوند کا یا سسر کے ظلم کا کوئی خوف نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے اصل ڈرنے کی وجہ ایک عورت ہوتی ہے ۔ان کے معاشرے میں ساس کو آپ ہٹلر کہہ سکتے ہیں ۔ساس سے اسکا بیٹا ، اس کی بہو حتی کہ اس کا شوہر بھی ڈرتا ہے۔یاد رکھیں جہیز کی خواہش شاید ہی کسی مرد کی ہوتی ہو، یہ ساس ہی ہے جسےسارے محلے کو بہوکا جہیز دکھانے کا شوق ہوتا ہے ۔ سسرال میں عورت پرظلم گھر کے مردنہیں کرتے ۔ اسے اٹھتے بیٹھتے طعنے اس کی نندیں دیتی ہیں ۔ یا پھر اس کی دیورانیاں جیٹھانیاں ۔ اسے نفسیاتی طور پر اتنا ٹارچر کرتی ہیں کہ وہ اس زندگی سے موت کو ترجیح دینا شروع ہوجاتی ہے ۔ ان کے اخبارات میں چولہا پھٹ جانے سے بہوکے جل جانےکی خبریں چھپتی ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ گھر کے مرد کچن میں جا کر چولہا خراب کرتےہوں گے ؟کسی عورت کے بچہ نہ ہوتو اس کی زندگی عذاب ،شوہر سے زیادہ اس کی سسرال کی عورتیں بناتی ہیں ۔ جہیز قیمتی نہ ہو تو گھر کے مر دکو ئی بات نہیں کرتے ،البتہ نندیں ساری زندگی اپنی بھابھی کی زندگی اجیرن کر کے رکھتی ہیں ۔ اسی طرح دوسری جانب بہو جوہے چونکہ اس کے ذہن میں اس کی ماں نے یہ بات ڈال دی ہوتی ہے کہ تمہاری سب سے بڑی دشمن تمہاری سسرال کی عورتیں ہیں، اس لئے وہ بھی ان کے خلاف چالیں چلتےاور ان کو نیچے دکھانے میں عمر گزاردیتی ہے۔
پروفیسر صاحب تھوڑی دیر رکے پھر بولے میں نے آپ کو صبح آواگان یعنی لائف کا سرکل سمجھایا ہے نا ۔سب نے کہا ہاں ۔ کہنے لگے ساس کو آپ ایک ظلم کا سرکل سمجھ لیں جس میں ایک عورت اپنے حصے کی تکلیفیں برداشت کر کے جب اس عہدے پر پہنچتی ہے تو وہ وہی کرتی ہے جو اس کے ساتھ ہوا ہوتا ہے ،اور یہ سلسلہ اسی طرح صدیو ں سے چل رہا ہے ۔
میرا خیال ہے کہ اگر پاکستانی یا انڈین معاشرے میں عورتو ں کے حقوق کی کوئی تحریک چلی اگر انہوں نے کبھی آٹھ مارچ منانے کی کوئی جدوجہد کی تو ان کو اپنے اصلی دشمن کوپہنچاننا ہوگا ۔ ان کی تحریک کا اصل ہدف مرد نہیں بلکہ عورت ہی ہونی چاہیے ۔ عورت کو عورت کے ظلم سے بچالیں ۔ مستقبل کا نقشہ خود بخور سنور جائے گا۔
تفصیل کالم
https://www.mukaalma.com/144827/