Shahzad Hussain
بھائی کی وال سے کاپی پیسٹ ایک پرانی پوسٹ
قبرستان میں ایسی بے تحاشہ قبریں ہیں جن کے مکین زندگی میں سوچا کرتے تھے کہ نماز اس وقت پڑھیں گے جب خشوع و خضوع کا حصول ہوگا، یا قرآن جب بھی پڑھیں گے تو سمجھ کر پڑھیں گے۔ اس آس میں وقت کو ٹالتے رہے (جو کہ اکثریت انسانوں کی فطرت ہے) یہاں تک کے آخری وقت نے آن دبوچا اور کفن میں لپیٹ کر قبر تلے دبا دئیے گئے
عبادات اور فرائض کو بلیک اینڈ وائٹ میں دیکھنے کی بھیانک غلطی ہرگز نہ کیجیے
جس قدر توفیق مل رہی ہے، کر گزریے۔ خشوع و خضوع اللّٰہ سے مانگیے پر عبادات سے اس آس میں غفلت نہ برتیے کہ اس وقت کروں گا جب پرفیکشن حاصل ہوگی
زندگی تو ایک جھٹکے میں جاسکتی ہے۔۔۔۔
کوشش کیجیے کہ اپنا ٹیمپو بنائیں۔ شروع کے چند دن صرف عادت بنانے پر فوکس کیجیے۔ جتنی نماز، جتنی تلاوت کی توفیق ملے، بس کرتے جائیے۔ پرفیکشن کی آس میں صفر ہوکر نہ بیٹھیے۔ ایک بار عبادات کا ٹیمپو بن جائے تو خشوع و خضوع کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ عبادات کے بہت سے درجات ہیں۔ اپنا سفر آج، ابھی سے شروع کردیجیے اور اللّٰہ توفیق دے تو منزلیں طے کرتے جائیے
اپنے بچوں کو یوں نہ کہیے کہ قرآن پڑھو تو سمجھ کر پڑھو۔ اس سے وہ نفسیاتی طور پر، قرآن پڑھنا اس وقت تک ٹالتے رہیں گے جب تک کہ وہ سمجھ نہ سکیں اور اس ٹالنے میں کئی لوگوں کی عمر ہی تمام ہوجاتی ہے
بلکہ یوں کہیے کہ قرآن کو سمجھ کر "بھی" پڑھا کرو، یعنی قرآن سمجھ آئے نہ آئے، پڑھا ضرور کرو اور کوشش کرتے رہو کے پڑھنے کی عادت کو ڈیویلپ کرکے سمجھنا بھی شروع کرو
کیونکہ،
ایک بار موت کی دہلیز پار ہوگئی، تو کسی صورت واپسی نہیں۔ زندگی بہت بڑا موقع ہے، اسے کسی بھی طرح سے ضائع نہ کیجیے۔۔۔۔!!!
اپنے گھوڑے تیار رکھو
انجنئیر ظفر وٹو
اس سال کی طوفانی بارشوں اور سیلاب کی تباہی سے اگر کوئی ایک انتہائی اہم سبق سیکھا جا سکتا ہے تو وہ ہے “بروقت تیاری”۔ ہم اپنے سر پر کھڑی موسمیاتی تبدیلی کی اتنی بڑی آفت سے آنکھیں بند کرکے حسب معمول کالا باغ ڈیم بنانے یا نہ بنانے کی بحث کرنے، کرپشن کے قصوں کے چسکے لینے اور اپنے اپنے سیاسی لیڈروں سے وفاداری نبھانے میں مصروف ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جب ہلاکو خان کی فوج بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے شہر کے دروازے پر پہنچ چکی تھی تو شہر میں موجود عالم لوگ اس بحث میں مصروف تھے کہ سوئی کے چھید سے کتنے فرشتے گزر سکتے ہیں۔
ماحولیاتی سائنسدان تو پچھلے بیس پچیس سال سے وقتا فوقتا موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں خبردار کر رہے تھے لیکن پاکستان میں اس سال اسے حاضر کی آنکھ سے دیکھا ہے جب سال کے پہلے نصف میں انتہا کی خشک سالی اور پھر جولائی سے شروع ہونے والی طوفانی بارشیں جونہ صرف پانی کی مقدار کے لحاظ سے بہت زیادہ تھیں بلکہ جن علاقوں میں ہوئی ہیں وہ عام طور پر مون سون کی بارش والے علاقے نہیں سمجھے جاتے جیسا کہ مغربی بلوچستان اور سندھ۔ ان کا آغاز کراچی میں خلاف معمول تباہ کن بارشوں سے ہوا۔
پنجاب جسے روایتی طور پرمون سون کا مرکز مانا جاتا ہے وہاں اس دفعہ معمول کی بارش ہوئی اور کوئی دریائی طغیانی یا سیلاب نہیں آیا۔ کوہ سلیمان اور وسیب کا سیلاب بھی خلاف معمول تھا۔شمالی علاقوں خصوصا سوات میں بھی سیلاب نے 2010 کے سپر فلڈ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
سیلاب سے متاثر ہونے والی ہماری آبادی دنیا کے 150 ملکوں کی انفرادی آبادیوں سے زیادہ ہے اور سیلاب سے متاثرہ رقبہ بھی دنیا کے 150 ملکوں کے انفرادی رقبے سے زیادہ ہے۔ اس وقت جتنے پاکستان کے جتنے علاقے پر سیلاب کا پانی کھڑا ہے وہ دنیا کے 100 ملکوں کے انفرادی علاقے سے بھی بڑا ہے۔
تباہی بہت بڑی ہے اور ہم سے کچھ نیا کرنے کو مانگتی ہے کیونکہ ایسے حالات میں معمول کی ترکیبیں یا اقدامات کام نہیں آئیں گے۔سب سے اہم بات تو اگلی آفت سے پہلے آفت کی تیاری ہے تاکہ ہم جانی و مالی نقصانات سے بچ سکیں۔اس تیاری کے لئے جو وسائل چاہئے ہوں گے وہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کے نقصانات سے انتہائی کم ہیں۔
دنیا کے ماحول کو گندہ کرنے والے ممالک جن میں چاچا سام پیش پیش ہے نے گرین کلائمیٹ فنڈ کو جو 10 بلئین ڈالر سے زیادہ کی فنڈنگ دی ہے وہ رشوت کے پیسوں سے صدقہ کرنے کے مترادف ہے لیکن ہم اس سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکے اور پچھلے اتنے سالوں میں کوئی منصوبہ بنا کر لانچ نہیں کر سکے۔ مجبوری میں امیر ملکوں کی طرف سے قائم کیا گیا یہ فنڈ بھی صدقہ خیرات یا قرض معاف کرنے کے لئے نہیں بلکہ قابل عمل زمینی منصوبوں کے لئے ہے۔
پاکستان کو بھی اس موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کو سمجھتے ہوئے پر اپنی ترجیحات طے کرنی چاہئیں۔
فوری ردعمل والے سیلاب کے پیشگی اطلاعاتی نظام بنانے ہوں گے۔
سیلابی علاقوں کی نقشہ بندی کرکے آفت کی صورت میں محفوظ پناہ کے علاقے تلاشنے ہوں گے۔
آفت کی صورت میں پانی، خوراک اور آمدورفت کو رواں رکھنے کا سوچنا ہوگا۔
سیلابی پانیوں کو راستہ دینا ہوگا اور ان کی راہ میں رکاوٹوں کو ختم کرنا ہوگا۔
تمام انفراسٹرکچر منصوبے بشمول سڑکیں پانی دوست بنانا ہوں گے۔
سیلاب کے بعد کھڑے ہونے والے پانی کی نکاسی کے مقامی پلان بنانے ہوں اور ان سب کاموں میں معیشت کو مضبوط کرنے کے بے انتہا مواقع چھپے ہوئے ہیں
جتنے بڑے خطرے کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں اس کا حل آفت کو قابو کرنے کی بجائے اسے گلے لگانے میں ہے۔اپنے آپ کو آفت کا عادی بنانے میں ہے۔دنیا کی بہت سی مخلوقات حتی کہ بڑے بڑے ڈائنوسار بھی ارتقا کے عمل میں ختم ہوگئے لیکن کمزور حضرت انسان اس دھرتی پر اس لئے دندناتا پھر رہا ہےکہ اللہ نے انسان کو ماحول کے مطابق ڈھالنے کی بے پناہ صلاحیت رکھی ہے۔ “جو ڈھل گیا وہ چل گیا”
اس ساری صورت کا مثبت پہلو درد دل رکھنے والے وہ افراد یا سماجی بھلائی کی تنظیمیں ہیں جو آفت کے آتے ہی اپنے آپ متحرک ہوئے اور جس کاجو سمجھ آتا تھا اس نے کر ڈالا ۔ ریسکیو، کھانا، راشن، خیمے ، کیش، کپڑے اور گھروں کی دوبارہ تعمیر میں مصروف ہوگئے۔
مستقبل کی آفت کی تیاری کے عمل میں ایسے لوگ اور تنظمیں ریڑھ کی ہڈی ہیں جو آگے بڑھ کر مقامی طور پر لوگوں کی ذہن سازی، عوامی بیداری اور آفت سے پہلے بچاو کے پروگراموں کو عوام میں کامیاب بنا سکتے ہیں۔ یہ کام جتنا زیادہ سے زیادہ مقامی سطح پر ہوگا،اتناموثر ہوگا۔اس کام کے لئے مرکز یا صوبوں کی سطح پر قائم ادارے فوری اور موثر رد عمل نہیں دے سکتے۔
کاش ہم جنگ سے پہلے اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی عادت اپنا لیں۔
#zafariqbalwattoo
مستقبل کے عارضی مستقل شہر
انجنئیر ظفر وٹو
آپ نے ملک بھر کے سیلاب زدہ علاقوں میں سیلابی پانیوں سے گھری قدرے محفوظ جگہوں پر مختلف اداروں کی طرف سے قائم خیمہ بستیاں دیکھی ہوں گی۔یہی ہمارے مستقبل کے عارضی مستقل شہروں کی لوکیشن ہے۔قدرت نے ہمارا کام آسان کردیا ہے۔
تمام موسمیاتی اور ماحولیاتی گُرو بتا رہے ہیں کہ پاکستان میں بڑے سیلاب جو پے چار پانچ سال کے وقفے سے آتے تھے اب ہرسال آئیں گے اور اسی طرح زور آور آئیں گے۔ لہذا بچت اب اس سیلابی صورت حال کے مطابق ڈھل جانے والی تدبیر اپنانے کی ہے۔
قدرتی آفات کی روک تھام کے ادارے NDMA کو ملک کے سیلاب زدہ علاقوں میں قائم ان خیمہ بستیوں کی جگہوں پر باقاعدہ طور پر مون سون سیزن کے لئے مستقل طور پر محفوظ عارضی پناہ گاہیں بنا دینی چاہئیں۔
حج کے دوران منی میں قائم عارضی خیمہ بستی شہر کا ماڈل اس کام کے لئے سامنے رکھا جا سکتا ہے جہاں ہر سال بیس سے پچیس لاکھ لوگوں کے پانچ روزہ قیام کے لئے زبردست بندوبست ہوتا ہے۔
بیماری سے پہلے احتیاط کے اصول پر سیلابی موسم سے پہلے محفوظ خیمہ بستیوں میں عارضی ہجرت سے جانی و مالی نقصانات، بیماریوں ، حادثات اور کرب سے بڑی حد تک بچا جا سکتا ہے۔ الخدمت جیسی فلاحی تنظیم اس وقت تن تنہا سیلاب زدہ علاقوں میں 40 سے زیادہ خیمہ بستیاں چلا رہی ہے جہاں کھانے پینے، علاج معالجے اور بنیادی طبی امداد کا بندوبست ہے۔اللہ اکبر اور دیگر بہت سی اور فلاحی تنظمی بھی میدان عمل میں ہیں جنہیں اعتماد میں لے کر NDMA بڑے پیمانے پر لوگوں کو سیلابی موسم میں عارضی پناہ گاہوں میں ہجرت پر آمادہ کر سکتا ہے۔
اس سلسلے میں نادرہ کی مدد سے ان خیمہ بستیوں میں مقیم لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کرکے اگلے سال کے لئے ان کے خاندان اور جانوروں کی ضرورت کی جگہ ان خیمہ بستیوں میں ابھی سے الاٹ کی جاسکتی ہے۔ جو لوگ عارضی ہجرت میں تعاون کریں انہیں بھرپور سپورٹ کی جائے۔
بہت سی فلاحی تنظیمیں لوگوں کے گھروں کی بحالی پر بھی بڑی تیزی سے کام کر رہی ہیں جوکہ شائد اگلے سیلاب میں پھر گر جائیں گے۔ لہذا ضرورت ہے کہ اب سیلابی پانی سے بچاو کرنے والے گھر بنائے جائیں جوکہ سیلابی پانی کے لیول سے اونچے ہوں۔ اس سلسلے میں بنگلہ دیش اور مالدیپ جیسے ملکوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ کم ازکم تمام حکومتی اداروں (سکول، ہسپتال۔ دفاتر) کی عمارتیں تو ضرور اس ڈیزائن پر بنائی جائیں جن میں سیلاب کے دوران ایمرجنسی طور پر پناہ لی جا سکے۔ ان عمارتوں کو چھتیں پیدل چلنے والوں کے لئے پل بنا کر آپس میں جوڑ دی جائیں۔
اس سال سیلاب کے گندے پانی کو پینے کے قابل بنانے والے بہت سے مقامی فلٹر پلانٹ سامنے آئے ہیں جنہیں بھر ہور سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔خشک خوراک اور ادویات کے واٹر پروف پیکٹ اور تین چار کلومیٹر رینج میں ڈرون سے اون سپاٹ ڈیلیوری بھی کی جا سکتی ہے۔
این ڈی ایم اے ، PDMA , ریسکیو 1122 اور اس جیسے دوسرے اداروں کے ذریعے مقامی لوگوں کو ایمرجنسی طور پر تیراکی، کشتی بنانے اور ڈوبتے کو ریسکیو کرنے کی تربیت دینی چاہئے۔ ان علاقوں کے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبا پر ان مہارتوں کو سیکھنا لازمی ہواور این سی سی کی طرح اس کے نمبر ان کے ایف ایس سی کے رزلٹ یا یونیورسٹی کے داخلے میں شامل ہوں۔
خیمہ بستی والی اونچی جگہوں پر ایمرجنسی میں چند گھنٹے کے نوٹس پر خیمہ بستی قائم کرنے کا بندوبست، خوراک ادویات اور مشینری وقت سے پہلے موجود ہو۔ اس سکسلے میں ایک مرتبہ پھر الخدمت پہل کرلے تو دوسروں کے لئے بھی ایک مثال قائم ہوجائے گی۔
سیلابی صورت حال سے وقت سے پہلے آگاہ کرنے اور اس سے بچاو کے لئے راہنمائی کرنے والی ایپ اب بہت ضروری ہے جس میں تمام نشیبی علاقوں اور پناہ گاہوں کی نہ صرف نشاندہی ہو بلکہ اس علاقے میں کام کرنے والی تمام فلاحی تنظیموں اور محکموں کی معلومات اور آن لائن روابط ہوں اور ریسکیو کے لئے موجود لوگوں اور کشتیوں کی لوکیشن اوبر اور کریم طرز پر آرہی ہو اور قریب ترین کشتی کو بلا کر ریسکیو کیا جائے۔ اس سلسلے میں کسی بھی مناسب پروپوزل کو گوگل میپ، اوبر ، کریم اور فیس بک یقیناً سہورٹ کریں گے اور اپنے اپنے پلیٹ فارم پیش کریں گے۔
کیا ہم آنے والے کل کے لئے تیار ہونا چاہتے ہیں؟
#zafariqbalwattoo
اٹاکسک سیری برل پالسی (Ataxic Cerebral Palsy)
سیری برل پالسی برین ڈیمج سے ہونے والی ایک دائمی معذوری ہے۔ یہ معذوری ماں کی کوکھ میں، دوران پیدائش، یا پیدائش کے بعد بخار میں جھٹکے لگنے سے ہوجاتی ہے۔ جو کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوتی۔ ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی، حکمت، دم درود، ورزشیں اسکا علاج ہر گز نہیں ہیں۔ دیہاتی یا سادہ لوح والدین اس حقیقت کو قبول کرنے تک اپنا سب کچھ علاج پر لگا چکے ہوتے۔ جہاں امید کی کوئی کرن نظر آتی چلے جاتے۔ پیسوں کے ساتھ اپنا ایمان تک گنواتے لوگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
سیری برل پالسی کی اس قسم Ataxic میں متاثرہ فرد کے دماغ کا حصہ سیری بلم ڈیمج ہوتا ہے۔ جو ہمارے بیلنس اور جسم کے پوسچر کو قائم رکھنے کا کام کرتا ہے۔ سیری بلم ہماری حرکات و سکنات اور عقل و دانش کا بھی پورشن اپنے اندر رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے تقریباً 40 فیصد سی پی بچے عقل و دانش میں پسماندہ ہوتے ہیں۔ اس کو دوسرے الفاظ میں توازن کی ڈس ابیلٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اس قسم میں متاثرہ فرد اپنا توازن قائم نہیں رکھ پاتا۔ اور حرکات و سکنات میں Coordination کا ادراک نہیں رکھ سکتا۔
یہ بچے کھڑے نہیں ہو سکتے۔ اس بچے کی طرح کھڑا ہونے کی کوشش کریں تو لڑ کھڑا کر گر جاتے ہیں۔ فوراً کوئی کام نہیں کر سکتے۔ یعنی برین آرڈر تو دیتا ہے مگر مسلز کے ذریعے پیغام رسانی کا عمل سست ہوتا ہے۔ ہاتھوں کی گرفت نہیں ٹھیک ہوتی۔ پورے جسم کے مسلز میں کھچاؤ ہوتا ہے۔ سپیچ بھی اکثریت کیسز میں متاثر ہوتی ہے۔
علاج یا بحالی میں کیا آپشن ہے؟
حال کی گھڑی میں علاج کچھ بھی نہیں ہے۔ کوئی معجزہ نہیں ہونا ہوتا۔ جس کے لا حاصل انتظار میں والدین اپنی ساری خوشیاں تباہ کر دیتے ہیں۔ پوری دنیا گھوم آئیں ان بچوں کو سو فیصد ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔ ان بچوں کی زندگی میں کوئی آسانی آسکتی ہے تو وہ صرف اور صرف ٹیکنالوجی کے استعمال سے۔ انکے لیے کھانے کے برتنوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے۔ سینسرز والی بریسز ہیں جو کھڑے ہونے یا چلنے میں مددگار ہوتی۔۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس والی وہیل چیئرز ہیں۔ انکے دماغ کو پڑھ کر خیالات کو بول کر بیان کرنے والے ٹیبلیٹ ہیں۔
لکھنے میں مددگار آلات ہیں۔ کپڑوں اور جوتوں میں ہر بچے کے لیے کسٹمائزیشن ہے۔ ہوم سیٹنگز اور سکول سیٹنگز میں تبدیلیاں ہیں۔ جو انکی زیادہ سے زیادہ موبیلٹی یعنی چلنے پھرنے کو ممکن بنائے۔ واش رومز اور کچن انکے لیے قابل رسائی بنائے جاتے ہیں۔ سیڑھیوں کے ساتھ ایک بار لفٹ لگائی جاتی کہ سٹیپ چڑھنا انکے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ پانی سٹرا سے پلایا جاتا اور گلاس بند ہوتا جس سے پانی چھلک کر باہر نہ گرے۔ یعنی ہر ایک چیز کو کسٹمائز کیا جاتا ہے۔ سینسری تھراپی، ہائیڈرو تھراپی (نیم گرم پانی کے حوض میں واک کرانا) بہت کار آمد ہے۔ Conductive Education کو تعلیم میں استعمال کیا جاتا۔ ون ٹو ون ٹیچنگ ہے۔ یہ وہ کچھ کرنے کے کام ہیں جو جدید دنیا میں ان بچوں کی بحالی کے لیے کیے جاتے۔ اور یہاں ہم علاج، ورزش اور سپیچ تھراپی سے ہی آج تک باہر نہ نکل سکے۔
ایک استاد ایسے کسی ایک بچے کو اپنی پوری زندگی دیکر ایک نیا جیون عطا کرتا ہے۔ جس میں وہ بچہ تاریکی سے روشنی کے سفر کا مسافر بن جاتا۔ جہاں ایسے اساتذہ کی کمی ہے وہیں مالی وسائل اور شعور کی بھی از حد کمی ہے۔ ریاست کی سرپرستی کے بغیر ان بچوں کی بحالی کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ ایک بچے کو کوالٹی سروسز مہیا کرنے کی سالانہ لاگت 25 سے 30 لاکھ روپے تک ہے۔ یعنی 2 سے اڑھائی لاکھ ماہانہ۔ اور یہ اخراجات 10 سے 15 سال تک مسلسل ہونے ہوتے۔ کون کر سکتا ہے یہ سب؟ نہ ہی اتنے پیسے ہیں اور جنکے پاس ہیں بھی انکے لیے کوئی معیاری ادارہ موجود نہیں ہے۔ ایسے استاد ناپید ہیں جو اپنی زندگی ان بچوں پر لگانے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ یارو ان بچوں کی تعلیم و تربیت یا بحالی اللہ کی قسم کوئی جاب نہیں ہے۔ نہ اسکی کوئی تنخواہ دے سکتا ہے۔ بلکہ یہ تو ایک عشق ہے جس کی بازی میں ان بچوں پر اپنا سب کچھ ہی وار دینا ہے۔ جدید تحقیق سے ہمیشہ جڑے رہنا ہے۔ خود کو ہر روز اپ ڈیٹ کرنا ہے۔ اپنے علم کو جدید دنیا کی پریکٹس سے آراستہ رکھنا ہے۔ اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں استعمال ہونے والی جدید ٹیکنالوجی کو ریورس انجینرنگ کے ذریعے یہاں لوکلی دستیاب کرنا ہے۔
ایک خواب ہے۔ میری آنکھوں میں۔ جو مجھے رات کے اس پہر دو بجے بھی سونے نہیں دے رہا۔ کہ ان بچوں کو تعلیم و بحالی کی معیاری سہولیات یہاں ملک پاکستان میں میسر ہوں۔ اور اس خواب کی تعبیر ہم سب ملکر ان شاءاللہ ضرور کریں گے۔ شکوے کرنے کی نفسیات سے میں کئی سال پہلے نکل چکا ہوا ہوں۔ بس اپنے حصے کا دیا روشن کرنا ہے۔ وہ ان شاءاللہ کرتے رہیں گے۔ اور روشنی تو ایک دن ضرور ہوگی۔ ںے شک میری زندگی کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ مگر ان شاءاللہ ضرور ہوگی۔
خطیب احمد
#khateebahmqd
صوفی حیدر علی کا بیٹا ٹیپو سلطان وہابی ہو گیا ہے
تحریر آصف محمود/ترکش
تاریخ بھی ایک عبرت کدہ ہے۔ حیران کر دیتا ہے۔
یہ 1799 کا مارچ تھا۔نماز جمعہ پڑھ کر لوگ نکلے تو منادی کرنے والے نے منادی کی : ’’ اے مسلمانو! سنو،میسور کے صوفی بادشاہ حیدر علی کا بیٹا فتح علی ٹیپو وہابی ہو گیا ہے‘‘۔۔۔۔ یہ اعلان کرناٹکا کے مقبوضہ مضافات سے لے کر نظام کی ریاست حیدر آباد کے گلی کوچوں میں پڑھ کر سنایا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی بہادر ، مرہٹے اور نظام آف حیدر آباد میسور کے ٹیپو سلطان کے خلاف چوتھی جنگ لڑنے جا رہے تھے اور یہ اسی جنگ کی تیاری ہو رہی تھی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کو سلطان ٹیپو کے ہاتھوں شکست ہوئی اور انہوں نے ریاست میسور کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا تو اسے مٹانے کے لیے انہوں نے صرف عسکری منصوبہ بندی نہیں کی ، وہ ہر محاذ پر بروئے کار آئے۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے سلطان ٹیپو کے خلاف مذہبی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے یہ بات پھیلا دی کہ ٹیپو سلطان تو وہابی ہو گیا ہے۔
اس کے بعد دوسرا مرحلہ ’’ وہابی سلطان‘‘ کے خلاف فتووں کا تھا۔ ریاست حیدر آباد کے ’’ مفتی ‘‘ صاحبان سے سینکڑوں فتوے لیے گئے کہ صوفی حیدر علی کا بیٹا ٹیپو سلطان وہابی ہو گیا ہے اور اب اس کے خلاف لڑائی واجب ہو چکی ہے اور اس لڑائی میں جو بھی شریک ہو گا عند اللہ ماجور ہو گا۔ اجر پائے گا اور ثواب کا حقدار ہو گا۔چنانچہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی مرہٹوں اور نظام آف حیدر آباد سے مل کر میسور پر حملہ آور ہوئی تو اس کے ساتھ وہ مسلمان جنگجو بھی شامل تھے جو ثواب دارین کی خاطر سلطان ٹیپو سے لڑنے چلے آئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں تین ریاستوں میں تین اعلانات ہو رہے تھے۔ کہیں اعلان ہو رہا تھا ٹیپو وہابی ہو گیا ہے تو کہیں اعلان کیا جا رہا تھا ٹیپو شیعہ ہو گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایسا ہی ایک فتوی ڈیڑھ سال بعد سلطان عثمانیہ کے خلاف بھی لیا گیا جب ترکوں سے لڑنے کے لیے بر صغیر سے مسلمان فوجیوں کی ضرورت تھی اور ان فوجیوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ سلطنت عثمانیہ اور خلیفہ کے خلاف جارحیت میں انگریز سرکار کا ساتھ کیسے دیا جائے۔چنانچہ ایک ’’ تاریخی‘‘ فتوی لیا گیا کہ عثمانی ترکوں کے پاس مقامات مقدسہ کا نظم و نسق سنبھالنے کا کوئی استحقاق نہیں اور یہ استحقاق تو اصل میں شریف مکہ کا ہے ۔
تاریخ ایک پورا عبرت کدہ ہے۔القدس میں عثمانی ترکوں کو شکست دے کر برطانوی لشکر گھسا تو اس کے اولین دستوں میں ہندوستان کے مسلمان بھی شامل تھے۔ اسی ہندوستان میں پھر تحریک خلافت چلائی جاتی رہی۔عربوں نے عرب مزاحمت کے پرچم تلے ترکوں سے بغاوت کی اور نتیکہ یہ نکلا کہ القدس برطانیہ کے پاس چلا گیا ، وہی عرب بغاوت کا پرچم تھام کر آج فلسطینی اسی آزادی کو تلاش کر رہے ہیں جو اسی پرچم تلے گنوائی گئی تھی۔اور سلطان ٹیپو کو کسی نے وہابی اور کسی نے شیعہ سمجھ کر مرہٹوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا ساتھ دیا لیکن اسی سلطان کے مزار پر لکھا ہے : ٹیپو بنام دینِ محمد شہید شد۔ سلطان ٹیپو امر ہوگیا اور سلطان کے شہید ہونے کے بعد آج ان ’’ سہولت کاروں‘‘ کی دھول کا بھی کوئی نشان نہیں ہے۔
مذہبی کارڈ نہ صرف کل استعمال ہوا بلکہ آج بھی ابلاغ کے میدان میں مسلم معاشروں کی فالٹ لائنز کا تذکرہ اہتمام سے کیا جاتا ہے۔یہی کام ٹیپو سلطان کے ساتھ بھی ہوا۔ حالانکہ سلطان ٹیپو کسی بھی قسم کی فرقہ واریت سے بلند انسان تھا۔اس کی کہانی تو بس اتنی سی تھی کہ ’’ٹیپو بنام دین محمد شہید شد‘‘۔ مسلمانوں کے مکاتیب فکر کی عصبیت تو کجا اس نے تو ہندوئوں کے ساتھ بھی کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا کہ وہ ایک حکمران کے طور پر سب کے لیے خیر تھا۔ سلطان کے دربار میں ہندوئوں کے پاس اہم مناصب تھے۔ سلطان کا وزیر خزانہ کرشنا چاریا پورنیا ہندو تھا۔ یہی ہندو ریاست میسور کا پہلا دیوان یعنی ویر اعظم بھی تھا۔سلطان کے خزانے سے 156 مندروں کی مالی مدد کی جاتی تھی۔
ٹیپو کے خزانے کے سونے اور چاندی کے سکوں کے نام مذہبی یک جہتی کا استعارہ تھے۔سب سے قیمتی سکے کا نام سرکار دوجہاں ﷺ کی نسبت سے احمدی تھا۔اس کے بعد قیمتی ترین سکہ صدیقی تھا جسے صدیق اکبر سے نسبت تھی۔تیسرے سکے کا نام فاروقی تھا۔ایک سکے کے نام عثمانی اور ایک کا نام حیدری تھا۔ ٹیپو کے کاص دستے کا نام اسد اللہی تھا۔یہی ٹیپو سلطنت عثمانیہ کو لکھ بھیجتا ہے کہ فرات سے نجف تک نہر کھودیے اس کا خرچ ریاست میسور دے گی۔ یہ سفارت جب واپس میسور پہنچی تو ٹیپو دفن ہو چکا تھا۔ٹیپو بنام دین محمد شہید شد۔
لیکن جب تزویراتی ضرورت محسوس ہوئی تو اسی ٹیپو کے خلاف مذہبی بنیادوں پر پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔ جہاں جو الزام سود مند ثابت ہو سکتا تھا ، علاقہ اور لوگوں کے رجحانات دیکھ کر ٹیپو پر وہی الزام عائد کیا گیا۔ فرقہ وارانہ منافرت کا بر صغیر میں یہ پہلا تزویراتی استعمال تھا ۔اس بیانیے میں لفظ ’’ صوفی حیدر علی‘‘ کا استعمال بھی بڑا دلچسپ ہے۔ یہ گویا تاثر دیا جا رہا تھا کہ سلطان حیدر علی کی فکر سے اس کے بیٹے نے بغاوت کر رکھی ہے اور حیدر علی کے وفاداروں کو اب اس کے بیٹے کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔
میسور کی فتح کے بعد انگریزوں نے سلطان کے کتب خانے کا معائنہ کیا تو وہاں سے صوفی ازم پر 115 کتابیں نکلیں۔ چارلس سٹیورٹ نے سلطان کے کتب خانے کی مکمل فہرست شائع کر دی جو ‘A descriptive catalog of the oriental library of the late Tippoo Sultan کے نام سے پاکستان آرکائیوز میں بھی محفوظ ہے۔لیکن اب کے کسی نے کوئی اعلان نہ کیا کہ صوفی حیدر علی کے وہابی بیٹے کی لائبریری سے صوفی ازم کی 115 کتابیں نکلی ہیں۔ اب کی بار ایک نیا اعلان فرمایا جانے لگا۔
تخت پر اب کرشنا راجا بیٹھا تھا اور سلطنت میسور کو غدار پورنیا چلا رہا تھا اور اس کی سر پرستی ایسٹ انڈیا کمپنی کر رہی تھی۔ ادھر نظام آف حیدر آباد کی ریاست میں عام آدمی دلگرفتہ تھا کہ سلطان ٹیپو شہید ہو گیا اور ہماری فوج نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ مل کر اسے شہید کیا۔ چنانچہ اب نیا اعلان اور نیا پراپیگنڈا کیا جانے لگا۔
خطبوں میں ، مساجد میں بتایا جانے لگا کہ سلطان ٹیپو تو محض اقتدار کے لیے اسلام کا نام استعمال کر رہا تھا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے کتب خانے میں شاعری کی 190 کتابیں نکلیں جب کہ قرآن و حدیث کی کتابیں اس سے آدھی بھی نہیں تھیں۔ اس دور کے ریاست حیدر آباد کے ’’ علمائے کرام‘‘ اور ’’ مفتیان عظام‘‘نے جو مضامین باندھے ( یا بندھوائے گئے) کبھی ان کا کوئی مجموعہ پاکستان میں شائع ہو جائے تو چودہ نہ سہی آٹھ دس طبق ضرور روشن ہو جائیں گے کہ تاریخ میں مذہبی منافرت کا تزویراتی استعمال کیسے کیسے کیا جاتا رہا۔
کاش کوئی لکھنے والا ٹیپو سلطان پر لکھے جیسے اس پرلکھے جانے کا حق ہے۔ٹیپو بنام دینِ محمد شہید شد۔
aserty Anastasyia
casino. If you take a look at Icecasino casino you'll make sure that it is something that can help you stop doing the job you hate.If you've been searching for the best casino it's a sign that you've found it.
Delete Comment
Are you sure that you want to delete this comment ?