ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ کس طرح لیڈر تیار کرتی ہے اور کام نکلنے کے بعد کس طرح انکو ٹھکانے لگادیا جاتا ہے۔۔۔انور سجاد کا یہ ڈرامہ تھا تو نوازشریف کے بارے میں لیکن تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو لیاقت علی خان سے لیکر عمران خان تک بشمول بھٹو سارے اسٹیبلشمنٹ کی نرسی سے ہی تربیت پاکر جوان ہوئے۔
اور ہم بیچارے ہر تھوڑے عرصے بعد سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو گئی ہے۔
آئیں سوچیں سمجھیں اور اس گندے نظام کے خلاف شعور پیدا کریں۔
ہمارے ہاں یہ ہوا کہ ہم نے اپنے بیویوں کو محکوم بنایا اور انہیں ذلیل سمجھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گھروں کی فضا محکومی اور ذلت سےالودہ ہوگئ ہے ہم اس فضا میں سانس لیتے ہیں اور ہمارے بچے اسی میں پلتے ہیں چنانچہ ہمارے اس گھریلو زندگی کا اثر ہمارے گھر سے باہر کی پوری زندگی پر پڑا ، جس طرح ہم نے گھر کے اندر اپنی عورتوں کو ذلیل اور محکوم سمجھا اسی طرح ہم گھر کے باہر خود بھی ذہنی ، طبعی اور اخلاقی لحاظ سے محکوم اور ذلیل ہوگئے اور ہماری اولاد اسی سانچے میں ڈھلتی چلی گئی ۔
سچ پوچھو تو ہماری موجودہ قومی پستی ، جمود ، بے ضمیری اور عدم استقامت بہت حد تک ہماری اس گھریلو زندگی کی وجہ سے ہے اب اگر ہم نے آزاد ہونا ہے اور اس دنیا میں اپنی پیروں پر کھڑا ہونے کی ہمت پیدا کرنا ہے تو ضرورت ہے کہ ہم اپنی عورتوں کے اندر عزت نفس اور رفاقت کا شعور پیدا کریں۔
مولانا عبیداللہ سندھی
#internationalwemanday
ایک زمانہ تھا کہ برصغیر میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ایسے کام کرتی تھیں جن سے براہ راست جی ڈی پی میں اضافہ ہوتا تھا. دودھ بلو کر مکھن نکالنا اور پھر اس سے گھی بنانا، چرخہ کاتنا، اچار ڈالنا، سلائی کڑھائی کرنا، سویٹر بننا اور اس جیسے اور بہت سے کاموں میں ہماری خواتین طاق تھیں. یہ سب کام جی ڈی پی میں اضافے کا باعث تھےاور انگریزوں کی آمد سے پہلے برصغیر دنیا کی کل جی ڈی پی کا ستائیس فیصد پیدا کرتا تھا.
دنیا میں صنعتی انقلاب آیا تو اسے یہ چھوٹی چھوٹی صنعتی اکائیاں اپنے پھیلاو کے راہ میں رکاوٹ نظر آئیں سو مختلف پراپیگنڈوں کے ذریعے ان کاموں کو حقیر اور اسے عورت کا استحصال قرار دے دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ عورت کی صلاحیتوں کا قتل ہے. عورت کو جی ڈی پی پیدا کرنے کے مفید کام سے ہٹا کر سروسز سیکٹر میں جھونک دیا گیا. ایسا کرنے سے عورت کو شناخت کا شدید مسئلہ درپیش ہوا کہ یہاں اس کا براہ راست مقابلہ مرد سے تھا. عورت نے اپنی راج دھانی چھوڑ کر مرد کی سلطنت میں قدم رکھا تو مرد کی حاکمیت کا احساس مزید شدید ہوگیا. وہ مرد سے اس قدر مرعوب ہوئی کہ اس کے نزدیک مرد کی کامیاب نقالی ہی عظمت اور کامیابی کا معیار ٹھہری. اگر دیانتداری سے تجزیہ کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ آج سے سو برس قبل کی عورت آج کی عورت کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور تھی. وہ گھر کی غیر اعلانیہ حاکم تھی اور اس کی راجدھانی میں کسی کو قدم دھرنے کی جرات نہ تھی.
عورت نے براری کے نعرے سے متاثر ہوکر خود کو بےشناخت کرلیا. اس کا استحصال بڑھ گیا. اس کا جنسی استحصال بھی زیادہ ہونے لگا. جو ملک جتنا زیادہ صنعتی وہاں عورت کا جنسی استحصال بھی اسی قدر زیادہ ہے. دنیا میں جنسی تعلق ذمہ داریوں سے مشروط تھا. طرفین کچھ ذمہ داریاں قبول کرتے اور زیادہ تر ذمہ داری مرد کے حصے میں آتی. برابری کے چکر میں عورت ان حقوق سے بھی محروم ہوگئی جو قانونی طور پر قائم کیے گئے جنسی تعلق کے نتیجے میں اسے میسر تھے. عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ برابری کی خواہش پر نظر ثانی کرکے اپنی سلطنت کو پھر سے مضبوط بنائے اور شناخت کے مسئلے سے نجات پالے۔
(طارق کلیم)