اسلام آباد میں ہماری اسلامی یونیورسٹی میں بھی اگر کچھ غیر اسلامی حرکتوں کی اجازت ہوتی تو آج نئے سال کی پہلی بارش میں یہاں کے سرخ در و دیوار ہمیں کس قدر خوش منظر اور دل کش لگتے ، ہمارے منکسر دلوں سے ابھرتے محبت آمیز جذبات ہمارے مضمحل چہروں کو پررونق کرتے تو ضرور کسی نازنین کی نظر ہمارے چہروں پر ٹھہر جاتی ، کیفے کے پانی ٹپکاتے سائبانوں کے نیچے یخ بستہ بوسیدہ کرسیوں پر بیٹھ کر ہم پتلی مگر گرم جوش چائے کی چسکیاں لیتے اور منھ سے دھواں اڑا کر اردگرد کی فضاء کو حرارت زدہ کرتے اور آسمان پر دوڑتے بنفشی بادلوں کی اٹھکیلیاں دیکھتے اور بارش کے قطروں کی شوخیوں اور چنچل پن سے لطف اندوز ہوتے۔ یہاں کے وسیع میدان میں جہاں آج کھیلنے والے لڑکوں کا مجمع نہیں تھا بلکہ سوکھا گھاس پھسلن زدہ ہوچکا ہے اور چھوٹے بڑے تمام گڑھے پانی سے بھرے ہوئے ہیں ، یہاں ہم ایک دوسرے کو سہارا دیتے پتھر کی پگڈنڈیوں پر بھیگتے ہوئے پیدل چلتے اور کسی چھتنار درخت کے نیچے رک کر اپنی سانسیس بحال کرتے۔
برسات کی اس حسین رُت میں روشن جبیں ، سرخ رُو اور آتشیں رخساروں والی "خوشبو" آج رہ رہ کر یاد آرہی تھی۔ خوشبو مجسمہ جمال تھی، یقیناً حُسن نے جب لطافت کی آخری حدوں کو چھوا تو "خوشبو" وجود میں آئی ہوگی المختصر "خوشبو" حُسن جہاں کی تکمیل تھی۔
شوق و تاسّف کی اُجاڑ دنیا سے نکل کر "خوشبو" کے پاس پہنچا تو اسے بھی اپنا منتظر پایا۔ اس شہر کی پر ہنگامہ گلیوں میں "خوشبو" نے اس سے پہلے شاید کبھی بھی چہل قدمی نہ کی تھی کیونکہ میری ہی خواہش پر "خوشبو" کو اس شہر میں آئے چند روز گزرے تھے۔ نازک و دلآویز"خوشبو" اور میں اگلے کئی گھنٹے ایک ساتھ رہے ، ست رنگی چھتری کا ہر رنگ "خوشبو " کے ظاہری شوخ رنگوں میں تحلیل ہورہا تھا۔ ان حیرہ چشم رنگوں کی آغوش میں سردی سے ہمارا تن سمٹنے لگا تھا، ہلکی بارش کی پھوار سے " خوشبو" کا آنچل بھی شبنم زدہ ہورہا تھا ، پانی کے ان ننھے قطروں کو ، میں بار بار اپنے ہاتھوں سے جھاڑ دیتا اور"خوشبو" کو اپنے پہلو میں مزید جگہ دیتا۔ خوشبو کی کشادہ پیشانی پر ایک سرخ تتلی بڑی بے باکی سے اٹھکیلیاں کررہی تھی اور میں اسے پکڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ شوق و مستی کے عالم میں خراماں خراماں ٹہلتے ہم ایک ایسے مقام پر جا پہنچے جہاں سے مارگلہ کی خزاں زدہ چوٹیاں نظر آرہی تھی جو بارش کے پانی سے دُھل کر مزید جاذب نظر ہو چکی تھیں ، بارش کے موسم میں بھولے بھالے پرندے مکمل بھیگ چکے تھے اور ان کے نشیمن برباد ہوچکے تھے مگر پھر بھی وہ پھرپھڑاتے، شور مچاتے انگ انگ سے یہی بول رہے تھے کہ اس موسم میں بھیگتے رہنا کتنا اچھا لگتا ہے!
آسمان پر بادل چھٹ رہے تھے اور ماحول میں خنکی بڑھ رہی تھی ، ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے ہمارے جوشیلے وجود کی گہرائیوں میں سرایت کر رہے تھے۔ سرگوشیِ نسیم سے "خوشبو" کے در کھلتے تو میں بھی بھینی مہک سے سرشار ہوجاتا۔ ان تمام لمحوں میں "خوشبو" میری آغوش میں سمٹی رہی۔ وصل کا لمحہ لمحہ بڑی برق رفتاری سے وقت کی جھیل میں ڈوب رہا تھا اور برگ و بار کا موسم خیال و خواب ہوتا رہا۔ میرے سکوت کو برسوں بعد قوتِ نغمہ سرائی ملی تھی۔ ہوا دھیمے لہجوں میں گنگناتی ہوئی ہماری سماعتوں کو چھوتی تو ماضی کی تمام تر یاداشتیں میرے لوحِ فہم پر تازہ ہو جاتیں جب جاڑے کی کہر بھری شاموں میں ، میں لحاف اوڑھے "خوشبو" کی رفاقتوں اور عنایتوں سے لذت یاب ہوتا، میری انگلیوں کے لمس سے "خوشبو" کی زلفیں بکھر جاتیں تو گہری رات چھا جاتی۔ "خوشبو" کے رنگوں میں کھو کر میں گہری نیند سوجاتا اور خوش منظر خواب دیکھتا۔ ان سرد راتوں میں چاند کی چاندنی امید اور ڈھارس بن کر میرے دریچے میں اترتی تھی۔
جیسے موجِِ بے تاب چند لمحوں میں ساحل کے کناروں سے ٹکرا کر واپس پلٹ جاتی ہے ویسے ہی عالم وارفتگی میں بیتے یہ کئی گھنٹے چند نحیف لمحوں کی مثل گزر گئے تو پنچھیوں کو اپنے آشیانوں کی فکر ہوئی۔ شام ہوتے ہی ہجر کےموسم کا سناٹا فضاءمیں پھیلنے لگا اور جگنو منظر پر جلوہ آراء ہونےلگے ہیں۔
بادل ناخواستہ ہم دونوں جامعہ کو لوٹ آئے ہیں۔ "خوشبو" کو میں نے دوبارہ اس کے مقام پر چھوڑ دیا ہے اور اب میں "نشاط" کو لیکر لحاف میں دبک گیا ہوں۔
غلط فہمیوں کا ازالہ: "خوشبو" پروین شاکر کی شاعری کی کتاب ہے جس کے ساتھ آج کا دن گزرا ہے اور "نشاط" نصاب میں شامل عربی کتاب کا نام ہے جس کے ساتھ رات گزرے گی کیونکہ کل "نشاط" کا ہی پرچہ ہے۔۔۔۔۔!
( میری "خوشبو" کس قدر خوبصورت ہے یہ آپ پہلے کمنٹ میں دیکھ سکتے ہیں )
ذوالقرنین سرور
وقت: 6:10 شام
اسلام آباد