کہنے والے کہتے ہیں جیمز براڈووڈ لائل کے ہاتھ جب تبادلے کے ساتھ وطن واپسی کا پروانہ ملا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ بطور لفٹیننٹ گورنر پنجاب جس شہر کو اپنے ہاتھوں جنت بنایا تھا اسی سے دیس نکالا آدم کی جلاوطنی سے زیادہ گہرا گھاو تھا۔
انیسویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے دنیا بھر میں پھیلی برطانوی سامراج کو جنگی مہمات کے لئے غلہ ، گھوڑوں و خچروں کی ضرورت پیش آئی تو اک نئے شہر کو بسانے کا فیصلہ کیا گیا۔ جیمز لائل نے 1897 میں پکی ماڑی نامی گاوں کے اطراف زمینیوں کا خود جائزہ لیا۔ نقشے بنائے اور ساندل بار کہلانے والے اس علاقے میں دریائے چناب سے نہر نکال کر زمینیوں کی سیرابی کا بندوبست کرنے کے ساتھ ساتھ چناب کالونی آباد کر کے اس نئے شہر کی بنیاد رکھی۔دیہاتوں کی حدبندی کے ساتھ سڑکوں کی تعمیر شروع ہوئی۔ سانگلہ ہل سے شور کوٹ تک ریلوے لائن بچھی۔ گھنٹہ گھر چوک میں کنواں کھدوایا گیا اور اس کے اطراف بازار بسائے جانے لگے۔
لائل پور آباد ہوا۔ کھلے ذہن و دل کے لوگوں کی زمین۔ چناب کے پانیوں نے ان زمینیوں سے سونا اگلوایا۔ یہاں بسے لوگوں کی فی البدیہہ جملے کہنے کی صلاحیت بھی شاید چناب کی بدولت ہے کہ اس کے پانیوں نے سیالکوٹ سے جھنگ تک اپنے کنارے بسی آبادیوں و شہروں میں مقیم لوگوں کے ذہنوں کو بھی ذرخیز رکھا ہے۔
قیام پاکستان کے بعد دریاوں، بستیوں و محلوں کو "کافر" سے مومن بنانے کا آغاز ہوا۔ چندر بھان سرحد پار کرتے ہی چناب کہلایا، دریائے کشن گنگا نے آزاد کشمیر کی مٹی کو چھوا تو نیلم بنا ۔۔۔ کرشن نگر کو اسلام پورہ کا نام ملا، منٹگمری نے صلیب اتاری اور ساہیوال ہو گیا۔ جب سب کے ختنے ہو گئے تو لائل پور کیسے بچ سکتا تھا۔ سعودی شاہ فیصل کے نام پر اسے منتقل کر دیا گیا تو آج فیصل آباد کے نام سے جانا جاتا ہے۔
دلدار پرویز بھٹی نے کہا تھا "میں کسی فیصل آباد کو نہیں جانتا ، میں تو لائل پور کو جانتا ہوں"۔ اس مٹی سے نصرت فتح علی خان، ضیا محی الدین، بھگت سنگھ جیسے باہنر لوگوں نے جنم لیا جو صرف لائل پور کو جانتے تھے۔
میں گھنٹہ گھر چوک میں کھڑا جیمز لائل کی رخصتی کا منظر سوچتا رہا۔ دھیان ٹوٹا تو رکشے والا مجھے گھورتے بول رہا تھا " سائیڈ تے ہو جا باو، سائیڈ توں وی گھنٹہ گھر اینج ای نظر آندا اے" ۔۔۔ آج کے فیصل آباد میں اتنی فصل نہیں اگتی جتنی جگتیں پیدا ہوتی ہیں۔ شیخوں، حاجیوں اور لائل پور کے واسیوں کو سلام۔ خوش مزاج لوگ، باہمت کاریگر، باکمال صنعت۔
نقل شدہ