مومن پانی بمقابلہ گٹر والا پانی

تحریر۔ انجنئیر ظفراقبال وٹو

کشید شدہ پانی (distilled water) پانی کی صاف ترین شکل ہوتی ہے۔ یہ نملیات سے صاف کورا پانی ہوتا ہے ۔ ہم اپنے زمانہ طالب علمی میں اسے مومن پانی کہتے تھے کیونکہ کیمسٹری کی لیباریٹری میں یہ ایک جیسے رنگ اور خصوصیات رکھنے والے مختلف نملیات کے محلول بنانے میں استعمال ہوتا تو ان کی دھوکہ دہی کو صاف ظاہر کردیتا۔

کشید شدہ حاصل بنانے کے لئے کتنا تردد کرنا پڑتا؟ کہ ٹونٹی کے عام پانی کو صاف ستھرے شیشے کی صراحی میں ابال کر اس کی بھاپ کو شیشے کی ہی ایک صاف ٹیوب کے ذریعے ایک دوسری صراحی میں لے جاکر ٹھنڈا کرنے پر پانی میں تبدیل کر لیا جاتا یوں ٹونٹی کے پانی والی کثافتیں (نملیات) پہلی صراحی (برتن) میں ہی رہ جاتے۔

کیا آپ کو پتہ ہے کہ بارش کا پانی کشید شدہ ہوتا ہے؟ جی ہاں۔

جھلیوں ، ندی نالوں، دریاؤں اور سمندر کے پانی کو مالک سورج کی گرمی سے پہلے بخارات میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ بخارات اوپر جاکر ٹھنڈا ہوکر روئی کے گالے یا بادل بن جاتے ہیں اور پھر انہیں قدرت کے خودکار نظام کے ذریعے دنیا کے مختلف حصوں کی طرف کورئیر کردیا جاتا ہے۔

مون سون کے موسم میں مالک کی طرف سے کشید شدہ پانی کا یہ تحفہ کثرت سے ہمیں عطا ہوتا ہے جسے ہم بادشاہ لوگ اپنی نااہلی کی وجہ سے فورا ہی “گٹر” والے پانی میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ پانی ہماری ضروریات سے کافی زیادہ ہوتا ہے۔ اسے گھروں کی چھتوں سے اسٹوریج ٹینکوں، کھلی جگہوں، پارکوں اور میدانوں میں اسٹور کیا جاسکتا ہے۔کوئٹہ اور کراچی شہر کے انڈر گراونڈ واٹر ٹینک پلمبنگ کا دوہرا نظام لگا کر اس قابل بنائے جاسکتے ہیں۔ لاہور میں پارک اور تعلیمی اداروں یونیورسٹیوں کے میدان اس مقصد کے لئے مختص کئے جا سکتے ہیں۔

ملائشیا کے دارلحکومت کوالالمپور کے لئے بارشی پانی کی نکاسی کے ماسٹر پلان بنانے والی مشاورتی ٹیم کا حصہ بننے کا موقع ملا۔ وہاں روزا نہ بارش ہوتی ہے لیکن ماسٹر پلان میں 76 ایسی جگہوں کا انتخاب کیا گیا جہاں بارش کے دوران پانی ذخیرہ کیا جانا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر جگہیں انگریز دور حکومت میں “ٹن “ مائننگ کے وجہ بننے والے قدرتی کھڈے تھے یا پھر پارک اور گراونڈر۔ اولپنڈی اور اسلام آباد جیسے شہروں کے لئے بارش کے پانی کو جمع کرنے کے لئے ایسے کئی ایسے قدرتی نشیبی علاقے میسر ہوسکتے ہیں۔

کوالالمپور کے بارشی پانی کے کھڑا ہونے والے علاقوں میں سیلابی پانی کو جانے سے بچانے کے لئے 12 میٹر قطر والی کنکریٹ کی سرنگ بنائی گئی جس کی لمبائی کئی کلومیٹر تھی۔ اس سرنگ کی اندر سے تین منزلیں تھیں۔ سب سے نچلی منزل پر ڈرین کے طور پر استعمال ہوتی اس سے اوپر والی منزل جانے والی 2 لین ٹریفک کے لئے استعمال ہوتی اور سب سے اوپر والی منزل آنے والی 2 لین ٹریفک کے لئے استعمال ہوتی۔ اگر کبھی بارش زیادہ ہوجاتی تو اس سرنگ کی دونوں منزلوں پر ٹریفک روک دی جاتی اور بارش کے پانی کو شہر سے باہر روانہ کردیا جاتاہے ۔

لاہور کینال کے نیچے اس قسم کی سرنگ کا بے حد پوٹینشئل موجود ہو سکتا ہے۔جس سے بارش کے پانی کی اسٹوریج تک پہنچانے یا نکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ مون سون کے علاوہ سال کے باقی مہینوں میں ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت صرف نیک نیتی سے عوامی فلاح کے بارے میں سوچنے کی ہے۔