2 yrs ·Translate

کائنات میں ہماری حیثیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: محمد یاسین خوجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزار وں سال تک ستارہ شناس اور فلکیات دان زمین کو ساکن اور کائنات کا مرکز سمجھتے رہے
پچھلی چند صدیوں میں ہی زمین کے متحرک ہونے کی خبر ملی اور یہ بھی بھرم ٹوٹا کہ ہم کائنات کا مرکز ہیں اور نہ ہی کوئی اہم کائناتی مقام کے مالک،
بلکہ ہم تو ملکی وے کے 200 سے 400 ارب ستاروں میں سے ایک درمیانے درجہ کے ستارے سورج کے ایک چھوٹے سے سیارے زمین کی ایک کمزور سی مخلوق ہیں
ہماری کوئی پہچان نہیں اور نہ ہی ایسا نمایاں مقام ہے کہ ہم ملکی وے سے باہر کی کسی مخلوق کو اپنا ایڈریس بھیج سکیں کہ ملنا چاہو تو یہاں آ جاؤ۔۔۔
ماہرین امکان ظاہر کرتے ہیں کہ ملکی وے کے ہر ستارے کے ساتھ زمین کے حجم اور کمیت کا ایک سیارہ تو لازمی ہوگا
یعنی صرف ملکی وے میں 200 سے 400 ارب زمین جیسے سیارے موجود ہوسکتے ہیں
ہم وُہ کمزور ترین مخلوق ہیں جن کے لیے فاصلے کے اعتبار سے زمین بھی انتہائی بڑی ہے
اس میں صحارا جیسے چلچلاتے صحرا ہیں جنہیں بغیر کسی مدد کے اپنے بل بوتے پر ہم مر کر بھی پار نہ کر پائیں گے
اس میں ماؤنٹ ایورسٹ جیسی چوٹیاں ہمیں دہشت زدہ کرنے کے لئے کافی ہیں
اس میں ایمیزون جیسے جنگل ہمیں ڈرا دینے کے لیے بہت بڑے ہیں
اور ہمیں جما کر مار دینے کے لیے انٹارکٹکا کافی ہے
مگر ہم ان سبھی کو چھوڑ چھاڑ کر خلائے بسیط میں نکل آئے تو بجائے فخر محسوس کرنے کے اپنی کم مائیگی اور ہے بسی کے احساس کو اور گہرا کر لیا
جہاں کائناتی اجسام کی عظمت ہمیں ڈرا رہی تھی وہیں سے بڑا چیلنج کائناتی فاصلہ تھا۔۔۔۔
ہم جی جان لگا کر فقط چند لاکھ کلو میٹر کا فاصلہ ہی طے کر سکے جو دو نوری سالوں پر پھیلے نظامِ شمسی کی لمبائی کا ایک فیصد بھی نہیں
ایک نوری سال 94 کھرب 60ارب 80کروڑ کلو میٹر پر مشتمل ہوتا ہے
اب اگر اونچے لیول پر دیکھیں تو پھر ہمارے سامنے ہماری اپنی کہکشاں ملکی وے آتی ہے
ملکی وے ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار نوری سال کا قطر رکھتی ہے
اب کہاں دو نوری سال اور کہاں ایک لاکھ بیس ہزار نوری سال اور کہاں فقط چند لاکھ کلو میٹر۔۔۔۔
اس کے بعد باری آتی ہے معلوم کائنات کی جو 93 ارب نوری سالوں کا قطر رکھتی ہے
اسقدر فاصلے میں تو ملکی وے کی لمبائی کو شامل کرنا اور نہ کرنا ایک برابر لگتا ہے
اور خلا میں ہمارا یہ سفر یا ہماری پہنچ کتنی اور کس لیول پر ہے آپ خود متعین کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی وے اتنا بڑا علاقہ ہے کہ اسکی لمبائی کا اندازہ لگاتے ہوئے سورج جیسے سینکڑوں نظاموں کی لمبائی کو گنتی میں لانا یا نہ لانا ایک برابر ہے
اور ستاروں کے شمار میں تو لاکھوں ستاروں کا گنتی میں نہ آنا بھی قابل قبول ہے
یہ حیثیت ہے ہمارے سورج بابا کی ملکی وے نامی ستاروں کے جزیرے میں
زمین سے 13لاکھ گنا بڑا سورج ملکی وے میں
انتہائی معمولی اور عام سی حیثیت رکھتا ہے جو کسی گنتی میں نہیں آتا تو زمین کس قطار میں آئے گی اور ہم؟؟؟۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
ملکی وے کو یکسر نظر انداز کر کے اپنا، زمین اور سورج کا موازنہ کریں
سورج ایک چٹان ہے تو زمین ایک کنکر اور میں اور آپ؟
اس کنکر کے کھربوں ایٹموں میں سے شاید ایک ایک ایٹم؟
ہم کتنے چھوٹے اور کتنے کم حیثیت ہیں؟؟؟
فرعون اگر یہ جان لیتا تو کبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کرتا۔۔۔۔
چنگیز خان، ہلاکو اور ہٹلر اگر کارل سیگن جیسا دل اور دماغ رکھتے تو کبھی کسی انسان کو معمولی سا زخم لگانے سے بھی کتراتے۔۔۔۔
کارل سيگان وُہ عظیم انسان تھا جس نے اس کائناتی بھیڑ بھاڑ میں گھبرائے ہوؤں کی انگلی تھامی، تسلی دی، احساس دلایا کہ بھلے کائنات میں ہماری حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے
مگر پھر بھی ہم ہماری زمین اور ہمارا نظامِ شمسی کائنات کی معلوم دو ہزار کھرب کہکشاؤں کے کھرب ہا کھرب ستاروں سیاروی نظاموں میں سب سے قیمتی ہے کیونکہ ان نظاموں میں کہیں بھی ایسا خوبصورت اور زندگی سے بھرپور سیارہ زمین نہیں ملا۔۔۔
اس لیے ایک دوسرے کی قدر کیجئے، سبھی کو جینے کا حق دیجئے
میں کارل جیسا عظیم اور ماہر سائنسدان تو نہیں البتہ اس سے زیادہ حساس ہوں
اس نے ایک معمولی سے معمولی انسان کو بیش قیمت سمجھا تھا اور میں زمین پر رینگنے والی چیونٹی کو بھی نہایت قیمتی سمجھتا ہُوں
کیونکہ ابھی تک اس بے کراں خلائی سمندر کے کسی بھی جزیرے پر اس کی موجودگی کی خبر بھی تو نہیں ملی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
ملکی وے میں اپنے گھر یعنی نظامِ شمسی کی درست پوزیشن کے بارے میں بہت عرصہ تک ماہرین مشکلات کا شکار رہے،کیونکہ ملکی وے اپنی ذات کے اندر بہت وسیع ہے
بہت سالوں کے مشاہدات و تحقیقات کے بعد فلکیات دان نظامِ شمسی کی کہکشاں میں درست پوزیشن کا کچھ ادراک کر پائے ہیں۔۔
ملکی وے کا قطر ایک لاکھ نوری سال سے زیادہ ہے، ستارے 400 ارب تک ہوسکتے ہیں بعض ماہرین تو ستاروں کی تعداد کا اندازہ 400 ارب سے بھی زیادہ لگاتے ہیں
ایک نوری سال 5۔9ٹریلین کلو میٹر (94کھرب 60ارب 80کروڑ کلومیٹر) ہے
اور ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار نوری سالوں کو کلو میٹر میں کنورٹ کیا جاۓ تو یہ لمبائی ہمارے ہوش اُڑا دینے کے لیے کافی ہے
ملکی وے کا قطر کلو میٹر کے پیمانہ کے حساب سے 9500سے 11400 کواڈرلین کلومیٹر ہے
(ایک کواڈریلین میں ایک کے آگے 15 صفر ہوتے ہیں)
اتنی بڑی اور چکرا دینے والی لمبائی میں انسان کے اپنے نظامِ شمسی کی درست پوزیشن معلوم کرنا بہت بڑا چیلنج تھا
ماہرین کا اندازہ ہے کہ ملکی وے اپنی اس اتنی بڑی صورت میں دوسری بونی کہکشاؤں کو اپنے اندر جذب کر کے پہنچی ہے
یہ جذب یا مدغم ہونے کا عمل اب بھی جاری ہے
اس وقت کینس میجر ڈوارف گلیکسی کے ستارے ملکی وے کی ڈسک میں شامل ہورہے ہیں۔۔۔اس کی ایک اور مثال سیجیٹئریس ڈوارف گلیکسی ہے۔۔۔۔
آئندہ اربوں سالوں میں لوکل گروپ کی دیگر بونی کہکشائیں بھی ملکی وے سے مل جائیں گی اور آخر کار ملکی وے اور اینڈرومیڈا بھی آپس میں مل جائیں گی
پھر ملکی وے انتہائی بڑی کہکشاں میں بدل جائے گی
ان اربوں سالوں میں انسان زمین پر موجود ہوں نہ ہُوں مگر اُنہوں نے اس عظیم کہکشاں کا نام ملکو میڈا تجویز کرنا ضروری سمجھا ہے
مقامی گروپ میں ہماری کہکشاں درمیانے درجے کی ہے
اینڈرومیڈا ہماری قریب ترین بڑی کہکشاں ہے جو تقریباً 25لاکھ نوری سال دور اور ملکی وے سے دو گنا بڑی ہے
قطر دولاکھ بیس ہزار نوری سال ہے اور ایک ہزار ارب ستاروں کی حامل ہے
اگر آپ ملکی وے سے باہر نکل کر ملکی وے کس نظارہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ دو بڑے اور بہت سے چھوٹے چھوٹے چکردار بازؤں پر مشتمل ایک اسپائرل گلیکسی ہے
پہلے ملکی وے کے چار بازؤں کا شمار بڑے بازؤں کے طور کیا جاتا تھا
مگر حالیہ سروے کے بعد محققین نے اس کے صرف دو بازؤں کو ہی بڑا قرار دے کر نام بھی تجویز کر دیے۔۔
Scutum-centaurus
Carina-sagittarus
کہکشاؤں کے بازو گیس اور دھول کے گھنے اور بل کھاتے ہوئے بادلوں پر مشتمل ہوتے ہیں
یہ کہکشاں کے گرد گھومتے رہتے ہیں گھومنے کے دوران یہ گھنا مادہ سکڑتا اور نئے ستاروں کی تشکیل کا باعث بنتا رہتا ہے
ان بازؤں کی ساخت کا اندازہ ملکی وے جیسی دوسری اسپائرل کہکشاؤں کے مشاہدے سے کیا گیا
حقیقت تو یہی ہے کہ آپ جتنی بھی تصاویر ملکی وے کی دیکھتے ہیں، وُہ کسی براہ راست مشاہدہ کا نتیجہ نہیں ہوتیں
کیونکہ ہم اور ہماری دور بينیں ملکی وے کے اندر ہیں
ملکی وے کی تصاویر یا تو ماہرین کے برسوں کےمشاہدات کی روشنی میں آرٹسٹ کا کمال فن ہوتی ہیں یا پھر اسی قسم کی دوسری اسپائرل کہکشاؤں کی ہوتی ہیں۔۔ مگر یہ درست ترین ہوتی ہیں یعنی اگر آپ ملکی وے سے باہر نکل کر دیکھیں تو یقیناً ملکی وے ایسی ہی نظر آئے گی۔۔۔
ملکی وے کے بازو ملکی وے کے کل ويزیبل میٹر کا 15فیصد ہیں
ماہرین ملکی وے کی ڈسک کے اندر وزيبل سپیکٹرم میں صرف 6000 نوری سال تک کا مشاہدہ کر سکتے ہیں
خاص قسم کی دوربینیں ماہرین کو
انفراریڈ اور دیگر نان ویزيبل ویو لینگھتس میں دیکھنے کے قابل بناتی ہیں۔۔۔۔
دیگر کہکشاؤں کی طرح ملکی وے بھی تاریک مادے کے وسیع ہالے میں گھری ہوئی ہے جو کہکشاں کی کل کمیت کا 90فیصد ہے
تاریک مادہ براہ راست مشاہدہ میں نہیں آتا
یہ کہکشاں کا پورا اسٹرکچر بنانے اور اُسے سنبھالے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے
اگر تاریک مادہ اپنے اس اہم فریضے سے منہ موڑ لے تو آن کی آن میں مادے کے تیز چکردار گھماؤ کے سبب کہکشاں کا مادہ خلا میں بکھر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا نظامِ شمسی کہکشاں کے مرکز سے تقریباً 25ہزار نوری سال دور ہے اور ملکی وے کے وزیبل کناروں سے بھی تقریباً اتنے ہی فاصلے پر ہے
یعنی آپ ملکی وے کے کناروں سے مرکز کی جانب سفر کریں جو کہ 50ہزار نوری سال یا اس سے کچھ زیادہ ہی
25000نوری سال کے سفر کے بعد نظامِ شمسی ائے گا مزید 25000نوری سال کے سفر کے بعد آپ مرکز میں پہنچیں گے
نظامِ شمسی ملکی وے کے دو بازؤں کے بیچ والے علاقہ میں
Orion-Cygnus Arm
پر موجود ہے اسے صرف اورین آرم،، اورین سپر )orion spur اور لوکل آرم بھی کہتے ہیں
اس کی لمبائی 10000نوری سال ہے
مصنوعی روشنیوں، بادلوں اور گرد و غبار سے پاک رات کے آسمان پر ملکی وے کو روشن دھول نما، دودھیا راستے کی شکل میں عام آنکھ سے با آسانی دیکھا جا سکتا ہے
یہ دودھیا راستہ رات کے آسمان کو دو ہیمی سفیئر میں تقسیم کرتا ھے۔۔
ہمارا سورج ملکی وے کے مرکز میں موجود سپر ماسیو بلیک ہول (جسے سجیٹریئس اے کہتے ہیں) کے گرد چکر لگاتا ہے
سورج تقریباً 250 ملین زمینی سالوں کے برابر عرصہ میں ایک چکر مکمل کرتا ہے اسے کہکشانی سال بھی کہتے ہیں اور کائناتی سال بھی۔۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ سورج کہکشاں میں اس وقت جس راستے سے گزر رہا ہے، پچھلی بار جب یہاں سے گزرا تھا تو زمین پر ڈائنوسارز دندناتے پھر رہے ہوں گے
آگلی بار جب موجودہ جگہ پر پہنچے تو نا جانے زمین پر کس مخلوق کی حکومت ہو کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔۔۔
بس حیرت و استعجاب کے سمندر میں غوطہ لگایا جا سکتا ہے، اپنی بے بسی،بے خبری اور کم مائیگی پر سر پیٹا جا سکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیشک ملکی وے اپنے آپ میں بڑا وسیع و عریض علاقہ ہے
مگر یہی وسیع و عریض علاقہ کائناتی لیول پر ایک چھوٹے سکڑے ہوئے تنگ دائرے کی صورت نظر آتا ہے
کائناتی لیول میں ملکی وے معلوم کائنات کی دو ہزار ارب کہکشاؤں میں ایک درمیانے درجے کی کہکشاں ہے
یعنی اس کے علاوہ ہماری کوئی مخصوص پہچان نہیں کہ
ہم کائنات کی دو ہزار ارب کہکشاؤں میں ایک درمیانے درجہ کی کہکشاں کے 400ارب ستاروں میں ایک درمیانے درجہ کے ایک ستارے کے گرد گھومنے والے سیارے پر لاکھوں قسم کی زندگی کی انواع میں سے ایک نوع ہیں
یہ کوئی پہچان نہیں اور کوئی حیثیت نہیں
ایسا لگتا ہے اس عظیم کائناتی سکیم میں ہماری یا ہمارے نظامِ شمسی کوئی وقعت نہیں
اور ہماری موجودگی یا غیر موجودگی اس پر بالکل اثر انداز نہیں ہوسکتی۔۔۔۔۔۔

Copeed

image
image