8 مارچ، یوم خواتین اور عورت مارچ
کیا ہوتا ہے Feminism؟
کون ہوتا ہے Feminist؟
میں ایک عام سے گھرانے میں پیدا ہوا۔ میرے والد صاحب بہت پڑھے لکھے شخص نہیں تھے مگر میری والدہ نے ایم اے کر رکھا ہے۔ میری والدہ محکمہ تعلیم میں ملازمت کرتی رہیں اور سینئر ہیڈ مسٹریس کے طور پر ریٹائر ہوئیں۔ میرے والد میری والدہ کو دوران ملازمت ہر ممکن مدد کرتے رہے جس میں والدہ کو روزانہ لاہور سے گوجرانولہ لے جانا اور لانا بھی شامل ہے۔ میرے والدین نے ہمارے لئے وہ سب کیا جو والدین اپنے بچوں کیلئے کر سکتے ہیں اور میرا یہ یقین ہے کہ سب ماں باپ اپنے بچوں کیلئے اپنی مالی استطاعت اور ذہنی استعداد کے مطابق بہترین کاوش کرتے ہیں۔ مجھے میری ماں نے بہن سے پیار کرنا سکھایا۔ بہن بھی الحمداللہ اعلی تعلیم یافتہ ہے اور ایچیسن کالج میں بھی پڑھاتی رہی ہیں۔ بہن کی شادی ہوئی تو کوشش کی کہ اسے احساس رہے کہ بیاہی گئی ہے مگر ماں باپ کا گھر ابھی بھی اس کا بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
مجھے اپنی ماں سے پیار ہے، میں اس کا احترام کرتا ہوں اور اپنی بیگم اور اولاد کو بھی ان کا خیال رکھنے کا کہتا ہوں۔ اپنے ہر کام میں ماں سے رائے لیتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ ماں کی رضامندی ہر کام میں شامل ہو۔ میرے نانا ابو کی وراثت تقسیم ہوئی تو میرے ماموں نے حساب کر کے ایک ایک پیسہ امی کو ادا کیا
میری شادی دوران تعلیم ہوگئی تھی، جب علم ہوا کہ نکاح نامی میں بیوی کو طلاق کا حق دینے سے متعلق کالم ہوتا ہے، اسی دن اس کالم میں بیگم کو طلاق کا حق تفویض کیا اور نکاح نامہ پر اس جگہ اپنے دستخط ثبت کئے۔ گو میں اپنی بیگم کیلئے بہت اچھا اور مثالی شوہر ثابت نہیں ہوا مگر گزشتہ 24 سال میں کوشش کی کہ اس کو دکھی نا کروں، شاید اس کوشش میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پایا ہوں مگر کبھی بیگم پر بے جاہ رعب ڈالنے یا حکم چلانے کی کوشش نہیں کی۔ جن باتوں پر شدید اختلاف ہو ان پر بھی اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کیا۔
اللّٰہ پاک نے مجھے پہلی اولاد بیٹی عطا فرمائی تھی اور اس کی پیدائش پر میں نے پورے کالج میں مٹھائی بانٹی تھی۔
مجھے اپنی دونوں بیٹیاں بہت پیاری ہیں۔ میں نے ان کی زندگی کے ہر معاملہ میں ان کی منشا، ان کے فیصلہ کو ترجیح دی ہے، ہاں اگر کہیں کوئی بات نا مناسب لگی تو ان کو سمجھایا اور الحمداللہ آج تک ان کا فیصلہ ایسا نہیں جو مجھے مناسب نا لگا ہو۔ الحمداللہ پچھے دنوں بڑی بیٹی کا نکاح کیا۔ بوقت نکاح، نکاح نامہ کے کالم پر کرتے وقت جب نکاح خواں صاحب نے حق مہر وغیرہ کے بارے پوچھا تو لڑکے والوں نے از خود طلاق کا حق دلہن کو تفویض کیا۔ انہوں نے کہا کہ کیوں کہ ہم نے اپنی بیٹیوں کیلئے یہ حق لکھوایا ہے لہذا ہم اس بیٹی کو بھی یہ حق دیں گے۔ میری بیٹی کو کھانا پکانا بلکل نہیں آتا، ہم نے یہ بات ان کو پہلے ہی بتا دی، انہوں نے کہا کوئی بات نہیں ہمارے بیٹے کو کھانے پکانے کا شوق ہے، وہ اس کیلئے بھی بنا لیا کرے گا۔
میرے بیٹے جن کو نیند سے اٹھانا مشکل ترین کام ہوتا ہے، اپنی بہنوں کے کہنے پر رات 3 بجے بھی اٹھ کر ان کے لئے مارکیٹ جا رہے ہوتے ہیں تا کہ اپنی بہنوں کی بے وقت بھوک کا علاج کر سکیں۔
میں پیشہ وکالت سے منسلک ہوں۔ میں نے اپنی لاء فرم 2003 میں سہیلہ پروین چودھری ایڈووکیٹ کے ساتھ مل کر بنائی تھی۔ ہماری لاء فرم کا نام S&N Law Firm ہے۔ کیونکہ سہیلہ مجھ سے سینئر ہیں لہذا ان کا نام پہلے آتا ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں شامل کم و بیش تمام خواتین کے بارے اپنی سوچ اور رویہ سے متعلق تفصیلات بلا کم و کاست آپ کے سامنے رکھ دیں ہیں۔ اب فیصلہ آپ کا کہ میں اور میری فیملی کے باقی حضرات Feminist ہیں یا نہیں۔
خواتین ہماری عزت ہیں، ہماری جنت ہیں، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں، ہمارے دل کا سکون ہیں، ہماری غم گسار ہیں، ہماری خوشیوں کا موجب ہیں۔
اب آتے ہیں اس مدعا کی طرف، جس وجہ سے میں نے یہ سب لکھا۔ 8 مارچ کو عورت مارچ نکالا گیا۔ اس میں مقبول عام نعرہ "میرا جسم میری مرضی" بھی لگایا گیا۔ اس کے علاوہ کچھ بہت عجیب طرح کے نعرے بھی لگے۔ ایک ہجوم جو عورتوں کو حقوق دینے کے نام پر انتہائی عجیب و غریب حرکتیں کر رہا تھا۔ میں عورت مارچ کے خلاف نہیں۔ میں نعرے لگانے کے بھی خلاف نہیں۔ مجھے اختلاف ہے انتخاب الفاظ نعرہ جات۔
مارچ نکالیں، اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کریں مگر کیا عورت مارچ میں کبھی کوئی ایسی عورت شامل نہیں ہوئی جس کے باپ، بھائی، خاوند، بیٹے یا دوست نے اس کے ساتھ کچھ اچھا کیا ہو؟
کیا کبھی کسی نے عورت مارچ میں ایسا کوئی نعرہ سنا کہ "my brother is the best" کبھی کسی نے کوئی ایسا پوسٹر دیکھا جس پر لکھا ہو "thank you Papa"۔ کبھی کسے نے کہا ہو "thank you husband for trusting me" کبھی کوئی ایسا پوسٹر "مجھے وراثت میں پورا حصہ ملا ہے".
برائے مہربانی ذرا سوچیئے!