خطے اور پاکستان میں امریکی کھیل

سعودی عرب اور یو اے ای کے حکمرانوں نے امریکی صدر جوبائڈن کا فون سننے سے انکار کردیا۔ یہ عمران خان کے 'ایب سلوٹلی ناٹ' کے بعد دوسرا بڑا جھٹکا امریکہ کو لگا ہے۔ (کچھ تجزیہ کاروں کے نزدیک امریکہ کو منہ پر انکار کی روایت عمران خان نے ڈال دی تو یہ اب امریکہ کو دور تک بھگتنی پڑے گی)

امریکہ چاہتا ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای نہ صرف روس کے خلاف امریکہ کو سپورٹ کریں بلکہ تیل کی پیدوار بھی بڑھائیں تاکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں نیچے آئیں اور روسی تیل رکنے سے جو تیل کی قیمتیں بڑھیں ہیں وہ کم ہوجائیں۔ یوں امریکہ سے دنیا اور خود یورپی و امریکی عوام کا دباؤ ہٹے۔ لیکن دونوں ممالک نے تیل کی پیدوار بڑھانے سے انکار کر دیا ہے۔

روس یوکرین جنگ کا اصل ماسٹر مائنڈ امریکہ ہے۔ جس نے یوکرین کو نیٹو میں شمولیت کا جھانسا دیا۔ وہاں اپنا کٹھ پتلی صدر لگایا۔ پھر وہاں نیٹو اڈے بنانے کی پلاننگ ہونے لگی۔ یعنی روسی دارلخلافہ امریکی میزائلوں سے چند منٹ کی دوری پر ہوتا۔ روس کے پاس کوئی آپشن نہیں رہا سوائے اس کے کہ وہ اس کو بذریعہ طاقت روکے۔

امریکہ کو یقین تھا کہ روس حملہ کرے گا بلکہ چاہتا تھا کہ وہ کرے۔ اسی لیے بار بار اعلانات بھی کر رہا تھا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ روسی حملے پر وہ فوراً روس پر معاشی پابندیاں لگا دے گا جس میں پوری دنیا اس کا ساتھ دے گی۔ ساتھ ہی روس کی جنگ کو یوکرین میں تھوڑا لمبا کھینچ لے گا۔ یوں روس کی معیشت بیٹھے گی تو پیوٹن کے خلاف روس میں امریکی حامیوں کی مدد سے بغاوت یا شورش برپا کروانے میں آسانی رہے گی۔ پیوٹن کو ہٹوا کر اور روس کا پٹھا بیٹھا کر چین کو اہم ترین اور سب سے طاقتور اتحادی سے محروم کر دے گا۔

روس میں امریکی کٹھ پتلی آگئی تو یہ خطہ سی پیک کے لیے غیر موثر ہوجائیگا۔ وہ کام جو امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر چین اور پاکستان کے خلاف نہ کر سکا وہ روس اور وسطی ایشیاء سے کروا لے گا۔ یوں عالمی سطح پر امریکی اجارہ داری قائم رہے گی۔

امریکہ نے داعش کی شکل میں اپنی پراکیسز اور بےشمار ٹینک شکن ہتھیار یوکرین بھیج کر جنگ تو لمبی کروا لی۔ روس پر پابندیاں بھی لگوا لیں۔ لیکن یورپ کو روسی گیس اور تیل کا متبادل نہ دے سکا۔ جنگ کے ساتھ ہی عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی قیمتوں کو قابو نہ کرسکا جس فائدہ روس کو ہے۔

اس جنگ میں سب سے پہلا دباؤ پاکستان پر ڈالا گیا جس کے وزیراعظم نے عین جنگ کے دوران بھی اپنا دورہ روس جاری رکھا۔ بےپناہ امریکی اور مغربی دباؤ کو یکسر مسترد کر دیا۔ بلکہ تڑی لگائی کہ 'ہم آپ کے غلام نہیں ہیں کہ جو آپ کہیں گے وہ ہم کرینگے۔' ساتھ ہی روس سے تیل اور گندم خریدنے کا اعلان کردیا۔ اس حالت میں یہ روس کی مدد ہے۔ پاکستان کو سائیڈ پر کرنے اور امریکی کیمپ میں لانے کا واحد طریقہ یہی رہ گیا ہے کہ عمران خان نامی کانٹے کو ہٹا دیا جائے۔

اس کے بعد حکومتیں گرانے اور ممالک کو غیر مستحکم کرنے کا سب سے ماہر امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم پاکستان پہنچتا ہے۔ مری ہوئی پی ڈی ایم میں دوبارہ نئی جان پڑتی ہے اور وہ زور و شور سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی تیاری کرنے لگتی ہے۔ پیڈ لفافے میڈیا پر ایسا سما باندھتے ہیں جیسے حکومت اب گری کہ تب گری۔

اس سارے معاملے میں امریکہ کو پی ڈی ایم کے بعد سب سے زیادہ امیدیں پاکستانی عدلیہ سے ہیں۔ اسی لیے امریکی ڈپلومیٹس نے اسلام آباد اور لاہور ھائی کورٹ کے ججز سے ملاقاتیں کی ہیں۔ عمران خان سب سے پہلے تحریک عدم اعتماد کو ناکام کرنے کے لیے سپیکر کی طاقت کو استعمال کرے گا جو پی ٹی آئی کے بک جانے والے ارکان کو ووٹ ڈالنے سے روک سکے گا۔ تبھی معاملہ عدالت جائیگا جہاں اطہر من اللہ وغیرہ پی ڈی ایم کی مدد کرینگے اور امریکہ کے اس بہت بڑے کھیل میں ایک مہرے کی طرح اپنا کردار ادا کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل امریکہ یا لندن میں محفوظ کر لینگے۔

امریکی اجاری داری دنیا پر قائم رکھنے کے اس سارے کھیل میں بدترین کردار فضل الرحمن نامی سیاسی طوائف کا ہے جس نے بےشرمی کی ہر حد پار کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف اس بات پر قومی اسمبلی میں قرار داد جمع کروا دی کہ اس نے مغرب کو یہ کیوں کہا کہ 'ہم آپ کے غلام نہیں ہیں۔'

تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں ریکارڈ 140 ڈالر پر پہنچ گئی ہیں۔ جن کو واپس لانے میں امریکہ نہ صرف ناکام ہے بلکہ خلیجی ممالک بھی اس کے ہاتھ سے پھسلنے لگے ہیں۔ پاکستان میں پی ڈی ایم کی تحریک عدم اعتماد تقریباً ناکام ہوچکی ہے اور ابھی گنتی بھی نہیں ہوئی کہ ان کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ شائد ڈونلڈ بلوم کی سی وی پر ناکامی کا پہلا داغ لگنے والا ہے۔

یہ ہے پورا عالمی منظر نامہ اور اسے سے جڑی پاکستانی سیاست۔ اسی لیے جنگ شروع ہوتے ہی سرخوں نے روس کو ظالم اور یوکرین کو مجاہد بنا کر پیش کرنا شروع کیا تھا اور میں نے تبھی پوسٹ لکھی تھی کہ روس مجبور تھا اور اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔

اس وقت عمران خان کو گرانے کی کوشش میں جو جو بھی حصہ لے رہے ہیں وہ امریکہ کی عالمی اجاری داری کو قائم رکھنے کی کوشش میں ہیں۔

مجھے ایک چھوٹے سے سوال کا جواب دیں۔

پاکستان کا ہر سیاست دان جانتا ہے کہ پاکستانی عوام 'مغربی' خوشنودی والے بیانات پر ناخوش ہوتی ہے۔ عوام جذبات سے واقف فضل الرحمن سمیت تمام پی ڈی ایم پھر مغربی خوشنودی پر مبنی بیانات کس کو خوش کرنے کے لیے جاری کر رہی ہے؟

تحریر شاہد خان
#بلال_خان_آفریدی

image