کوئی میرا امام تھا ہی نہیں
میں کسی کا غلام تھا ہی نہیں

تم کہاں سے بت اٹھا لائے
اس کہانی میں رام تھا ہی نہیں

جس قدر شورِ آب و گل تھا یہاں
اس قدر اہتمام تھا ہی نہیں

ہم نے اس وقت بھی محبت کی
جب محبت کا نام تھا ہی نہیں

اس لیے سادھ لی تھی چپ میں نے
اس سے بہتر کلام تھا ہی نہیں

وقت نے لا کھڑا کیا اس جا
جو ہمارا مقام تھا ہی نہیں

تو کہاں راستے میں آ گئی ہے؟
زندگی! تجھ سے کام تھا ہی نہیں

اڑ رہا ہوں کھلی فضاؤں میں
جیسے میں زیرِدام تھا ہی نہیں

اس لیے خاص کر دیا گیا عشق
عام لوگوں کا کام تھا ہی نہیں