7 مارچ: دھمکی آمیز مراسلہ موصول ہوا۔

8مارچ: تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی۔

9 مارچ: عمران خان نے کراچی میں گورنر ہاؤس میں خطاب کرتے ہوے کہا “میں تو خود اللہ سے تحریک عدم اعتماد کی دعائیں مانگ رہا تھا۔میرے ہاتھوں میوں جو زنجیر بندھی ہوئی تھی اب کھل گئی ہے۔اب میرا پہلا ہدف آصف زرداری ہوں گے جو کافی عرصے سے میری بندوق کے نشانے پر ہیں”۔ (تصدیق کے لیے 10 مارچ کے اخبارات دیکھیں)

9 مارچ سے 27 مارچ تک وہی بیان بازیاں، سازش کا کوئی ذکر نہیں۔

22 - 23 مارچ کو ہونے والے او آئی سی اجلاس میں امریکی وفد کی خصوصی دعوت پہ شرکت

27 مارچ: رات کو اسلام آباد کے جلسے میں بتایا کہ میرے خلاف تو امریکہ نے سازش کی ہے۔ اور ہمیں دھمکی آمیز خط لکھا تھا۔ یہ سب بکاؤ۔ ہیں وغیرہ وغیرہ

30 مارچ : قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس، کسی سازش کی ترید جبکہ اندرونی معاملات میں مداخلت پہ ڈیمارش دینے کا فیصلہ (سفیر کو ملک سے ناپسندیدہ شخصیت کا درجہ دے کر نہیں نکالا)

3 اپریل کو سازش کی بنیاد پہ عدم اعتماد پہ ووٹنگ نہیں ہونے دی خود ہی سازش کا الزام لگا کر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دی اور اسمبلیاں توڑ دی گئیں۔

اس سارے عرصے میں تحریک انصاف کی حکومت موجود رہی جس نے کسی فورم پہ اس کی تحقیق اور تفتیش نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ ہر آئینی قدم پہ اس کی آڑ میں پناہ لینے کی کوشش کی۔

اب ہر جلسے میں عمران خان کہتے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن بنائیں۔ حلانکہ وہ جوڈیشل کمیشن اپنے دور حکومت میں بنا سکتے تھے۔ وہ ساری اپوزیشن کو غدار ڈکلیئر کرنے سے پہلے جوڈیشل انکوائری کروا سکتے تھے۔

2013 کے انتخابات ہوئے عمران خان نتائج کو تسلیم نہیں کیا لمبے دھرنے سے ملک کو مفلوج کیا۔ چین اور ترکی کے صدور کا دورہ تاخیر کا شکار ہوا۔

2022 میں تحریک عدم اعتماد کو تسلیم نہیں کیا۔ اسلمبی توڑنے اور عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ کے عدالتی فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ لوگوں کو جلوسوں کی کال دی۔ اور اب حکومت سے الیشکن کا سوال کر رہے ہیں۔

کیا ضمانت ہے عمران خان جوڈیشل کمیشن کے نتائج کو مانیں گے؟ کیا ضمانت ہے یہ اگلے الیکشن کے نتائج کو تسلیم کریں گے؟

عمران خان کو سیاست میں gracefully ہارنا ہی نہیں آتا۔

#منیب