3 anos ·Traduzir

‎ سب کچھ ہے اپنے دیس میں روٹی نہیں تو کیا
‎وعدہ لپیٹ لو، جو لنگوٹی نہیں تو کیا
‎عالم بڑے بڑے ہیں، تو لیڈر گلی گلی
‎بارش ہے افسروں کی، تو دفتر گلی گلی
‎شاعر، ادیب، اور سخنور گلی گلی
‎سقراط دربدر ہیں، سکندر گلی گلی
‎حاکم ہیں ایسے کہ دیش کا قانون توڑ دیں
‎رشوت ملے تو قتل کے مجرم بھی چھوڑ دیں
‎نگراں، جو ملزمان کی آنکھیں بھی پھوڑ دیں
‎سرجن ہیں ایسے، پیٹ میں اوزار چھوڑ دیں
‎ہر قسم کی جدید عمارت ہمارے پاس
‎ہر ایک پردہ دار تجارت ہمارے پاس
‎اپنوں کو لوٹنے کی جسارت ہمارے پاس
‎کھیلوں میں ہارنے کی مہارت ہمارے پاس
‎ہر کام چل رہا ہے یہاں پر بیان سے
‎سرکار کے ستون تو رہتے ہیں شان سے
‎قرضہ تو مل رہا ہے ہمیں ہر دُکان سے
‎خیرات آ رہی ہے بڑی آن بان سے
‎یہ نور کا نہیں تو سی
‎جنتا سے کہہ دو شور مچانا فضول ہے
‎تکلیف کا بیان سنانا فضول ہے
‎شاہانِ قوم کو تو ستانا فضول ہے
‎سوتے ہیں سُکھ کی نیند جگانا فضول ہے
یہ نور کا نہیں سیاہی کا طور ہے
‎ہر جھوٹ ہر گناہ کا ہم کو شعور ہے
‎دنیا کے اور دیسوں کو دھن پہ غرور ہے
‎فنِ گداگری پر ہمیں بھی عبور ہے
‎شمسی مینائی