[ درس قرآن ]

آیت نمبر 130 :
وَ مَنۡ یَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّۃِ اِبۡرٰہٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِہَ نَفۡسَہٗ ؕ وَ لَقَدِ اصۡطَفَیۡنٰہُ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ
ترجمہ:
اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے انحراف کرے ؟ سوائے اس شخص کے جو خود اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کرچکا ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں انہیں (اپنے لیے) چن لیا تھا، اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہوگا۔

آیت نمبر 131
اِذۡ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسۡلِمۡ ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۳۱﴾
ترجمہ:
جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا کہ ”سر تسلیم خم کردو ! تو وہ (فورا) بولے ”میں نے رب العالمین کے (ہر حکم کے) آگے سر جھکا دیا۔
تفسیر:
یہاں سر تسلیم خم کرنے کے لئے قرآن کریم نے ” اسلام “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کے لفظی معنی سر جھکانے اور کسی کے مکمل تابع فرمان ہوجانے کے ہیں۔ ہمارے دین کا نام اسلام اسی لئے رکھا گیا ہے کہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ ہی کا تابعدار بنے،
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ شروع ہی سے مومن تھے اس لئے یہاں اللہ تعالیٰ کا مقصد ان کو ایمان لانے کی تلقین کرنا نہیں تھا اسی لئے یہاں اس لفظ کا ترجمہ اسلام لانے سے نہیں کیا گیا البتہ اگلی آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جو وصیت اپنی اولاد کے لئے مذکور ہے وہاں اسلام کے مفہوم میں دونوں باتیں داخل ہیں، دین برحق پر ایمان رکھنا بھی اور اس کے بعد اللہ کے ہر حکم کی تابعداری بھی۔ اس لئے وہاں لفظ ” مسلم “ ہی استعمال کیا گیا ہے۔

آیت نمبر 132 :
وَ وَصّٰی بِہَاۤ اِبۡرٰہٖمُ بَنِیۡہِ وَ یَعۡقُوۡبُ ؕ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ
ترجمہ:
اور اسی بات کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی، اور یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں کو) کہ : اے میرے بیٹو ! اللہ نے یہ دین تمہارے لیے منتخب فرما لیا ہے، لہذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میں آئے کہ تم مسلم ہو۔
( آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی )

#طلحہ_اسلامک_اکیڈمی