1 y ·Translate

لاش جلا کر گھر گرم کرو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں میت کی آخری رسومات کے مختلف طریقے رائج ہیں۔ لیکن بیشتر مذاہب میں دفنانے کا رواج ہے۔ جن میں مسلمانوں کے علاوہ یہود و نصاریٰ بھی شامل ہیں۔ چین کے کنفیوشس لوگ بھی دفناتے ہیں۔ تاہم ہندو مت، بدھ مت، سکھ مت اور جین مذاہب میں ارتھی (میت) کو جلایا جاتا ہے۔ جاپان، فلپائن اور تائیوان میں زیادہ تر لاشوں کو جلانے کا رواج ہے۔ یورپ میں دونوں طریقے رائج رہے ہیں۔ تاہم عیسائیت کے غلبے کے دوران جلانا ممنوع قرار پایا۔ لیکن اب یورپ میں بھی یہ سلسلہ عام ہوگیا ہے۔ جگہ کی قلت اور دیگر مصارف سے بچنے کیلئے لوگ میت جلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ شروع میں پروٹسنٹ فرقے نے اس کی اجازت دی، جبکہ کیتھولک نے مزاحمت کی۔ تاہم اب وہ بھی جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔ ابتدا میں کیتھولک علماء اس عمل کو شدت سے حرام قرار دیتے تھے۔ کیونکہ یہ مرنے کے بعد جی اٹھنے کے بنیادی عقیدے کا منافی ہے۔ سب سے پہلے کلیسا نے بہت سی شرائط کے ساتھ 1963ء میں اس کی اجازت دی۔ پھر اس میں مزید نرمی ہوتی رہی۔ عیسائی مذہب چونکہ موم کی ناک ہے، اس لئے اکتوبر 2016ء ویٹی کن سٹی سے فتویٰ جاری ہوا کہ میت کو جلانے کے مقابلے میں دفنانا افضل ہے، تاہم اس کی راکھ کو لواحقین میں تقسیم کرنے یا گھر میں رکھنے یا ہوا میں بکھیرنے کے بجائے مقدس مکان میں دفن کرنا چاہئے۔
دوسری جنگ عظیم میں نازیوں نے ہلاک شدگان کیلئے بھٹیاں (Furnaces) بنائیں۔ 2004ء کے سونامی میں 30 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے۔ ان کا دفنانا بڑا مسئلہ تھا۔ تعفن کی وجہ سے کئی جگہ لاشوں کو اجتماعی طور پر جلانے کا اہتمام کیا گیا۔
جرمن خبر رساں ادارے نے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس کے مطابق اب ماہرین جلتی لاشوں کو بھی کارآمد بنانے کے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ چونکہ یوکرین روس جنگ کے نتیجے میں یورپ کو روسی گیس کی سپلائی بند ہے۔ مقامی سطح پر پیدا شدہ گیس اور ایندھن کے دیگر ذرائع ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہیں، اس لئے میت جلانے کے دوران حاصل شدہ حرارت کو بھی ضائع ہونے سے بچانے پر ماہرین کام کر رہے ہیں۔ اب بھٹی کی اس حرارت سے گھروں کو گرم کرنے کا انتظام کیا جائے گا۔
سخت ترین سردی میں لکڑی اور گیس کی قلت کے باعث لاشیں جلانا بھی بجائے خود ایک مہنگا سودا بن گیا ہے۔ اگرچہ یورپی ممالک میں اب میت جلانے کا رواج عام ہوگیا ہے۔ تاہم گیس کی قلت کے باعث اس کے اجراجات بھی بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس لئے ماہرین اس ہیٹ کو بھی ضائع ہونے سے بچانے کی فکر کر رہے ہیں۔ بعض کمپنیاں اسے حرارت کو بھٹیوں کے قریبی گھروں تک پہنچانے پر کام کر رہی ہیں۔ جبکہ بعض اسے نیٹ ورک کی صورت پھیلانے کیلئے کوشان ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سوئٹزر لینڈ کے 85 فیصد باشندے اپنے پیاروں کی لاشوں کو دفنانے کے بجائے جلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ڈنمارک میں لاشیں جلانے کی شرح 77 فیصد ہے۔ جبکہ جرمنی میں 75 اور برطانیہ میں 73 فیصد۔ شمالی امریکا سے متعلق 2019ء میں آخری رسومات سے متعلق قومی ادارے (National Funeral Directors Association (NFDA) میں انکشاف کیا گیا تھا کہ مسلسل چار سال سے مردوں کو جلانے کا رواج عام ہو رہا ہے۔ 2017ء او 2018ء کے دوران دو برسوں میں امریکا میں میت جلانے کی بھٹیوں کی تعداد میں 8.9 فیصد اضافہ ہوا۔ اس وقت تقریباً ایک تہائی لاشیں جلائی جاتی ہیں۔ "لاشوں کو تدفین اور جلانا" کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2040ء تک امریکا میں لاشوں کے جلانے کی شرح 78.7 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ جبکہ تدفین کا سلسلہ صرف 15.7 فیصد تک محدود ہو کر رہ جائے گا۔
کورونا وائرس کے دوران بڑی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں سے لاشیں جلانے کے رجحان کو تقویت ملی۔ امریکا میں یومیہ پانچ ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہونے لگے تو ان کے لئے تدفین کا انتظام کرنا آسان نہیں تھا۔ پھر وائرس کے پھیلنے کا خدشہ بھی تھا۔ اس لئے یہ لاشیں جلانے کو ترجیح دی گئی۔ اس کے علاوہ بھی کچھ اور وجوہات ہیں، جن کی بنا پر دفن کے بجائے جلانے پسند کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی وجہ تدفین کے مصارف میں بے پناہ اضافہ ہے۔ جلانے پر تدفین کے مقابلے میں ایک تہائی اخراجات آتے ہیں۔ فرانسیسی جریدے لومونڈ کے مطابق تدفین سے قبل پروفیشنل طریقے سے میت کو تیار کرنا، پھر مخصوص تابوت بنوانا، تدفین کے مراسم اور دیگر اخراجات۔ اگر مستقل قبر کی جگہ خریدی جائے تو غریب کے بس سے ہی باہر ہے۔ اس وقت فرانس میں 7 ہزار يورو پر قبر کی جگہ ملتی ہے۔ یہ عام دیہات اور چھوٹے قصبات کی بات ہے۔ اگر آپ پیرس جیسے شہر میں قبر کی جگہ خریدیں تو یہ علاقے کے حساب سے 15 ہزار یورو تک مل سکتی ہے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم 45 لاکھ سے زیادہ بنتی ہے۔ جبکہ ہالینڈ میں تدفین کے اخراجات 4 ہزار یورو تک ہیں۔
بعض سائنسی تحقیقات میں تدفین کے بجائے لاشیں جلانے کو ماحول کیلئے مفید ثابت کیا گیا ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں جلانا بھی آسان نہیں رہا۔ اس کیلئے بڑی مقدار میں انرجی چاہئے۔ میت کو ایک لکڑی کے تابوت میں رکھ کر مخصوص بھٹی میں ڈالا جاتا ہے۔ لاش جل کر ہڈیاں بھی راکھ ہونے میں 3 گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ اس عمل کے لئے کم از کم ایک ہزار سینٹی گریڈ درجہ حرارت چاہئے۔ اس سے کم میں گوشت تو جل جاتا ہے، لیکن ہڈیاں سرمہ نہیں بنتیں۔ اس کے بعد یہ راکھ کسی جار میں ڈال کر ورثا کے حوالے کی جاتی ہے۔ بیشتر ورثا اسے کسی قبرستان میں دفن کر دیتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ سمندر میں بھی بہا دیتے ہیں اور بعض ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں میت جلانے کے بعد صرف 42 فیصد لواحقین کو راکھ دے دی جاتی ہے۔ جبکہ 35 فیصد راکھ کو خود انتظامیہ قبرستانوں میں دفن کردیتی ہے۔ جبکہ 16 فیصد لاشوں کی راکھ کو ضائع کر دیا جاتا ہے۔

یورپ میں بعض میت جلانے والی کمپنیاں اس راکھ کو ہیرا بھی بناتی ہیں۔ جبکہ بعض مرجان میں بھی تبدیل کردیتی ہیں۔ جرمن خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یورپ کی بہت سی کمپنیوں نے اب لاشیں جلائے جانے کے دوران پیدا ہونے والی حرارت کو بھی کارآمد بنانے پر کام شروع کر دیا ہے۔ضیا چترالی