2 yrs ·Translate

غالباً دو ہزار تین یا چار کے آس پاس کی بات ہے ۔ بحرین کالام روڈ شدید برفباری کے باعث بند ہوچکا تھا ۔ ایسے میں کالام میں غیر ملکی سیاحوں کا ایک گروپ پھنس گیا ۔ یہ مجھے صحیح سے یاد نہیں کہ یہ گروپ تین چار افراد پر مشتمل تھا یا صرف ایک couple تھا ۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ ان گورے سیاحوں میں سے ایک خاتون کافی معمر اور جسمانی طور پر کمزور تھی ۔ روڈ بند ہوچکا تھا اور بحرین تک جانے کیلئے سب کو برف میں تیس پنتیس کلو میٹر پیدل چلنا پڑتا تھا ۔ لیکن اس معمر خاتون کیلئے برف میں چلنا ممکن ہی نہیں تھا ۔ اسی وجہ سے یہ لوگ شدید پریشان اور گھبرائے ہوئے تھے ۔
تب کالام کے دس پندرہ نوجوانوں نے اکٹھے ہوکر ان سیاحوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے اس خاتون کو سٹریچر پر ڈال کر سٹریچر کندھوں پر اٹھائے بحرین تک لیجانے کا منصوبہ بنایا ۔ اور یوں دس پندرہ بہادر نوجوانوں کی یہ ٹولی شدید خراب موسم، خون جما دینے والی سردی اور ہر قدم پر پھسلنے والے برفیلے راستے پر اس خاتون کو سٹریچر پر لٹائے بحرین تک چھوڑ کر آئے تھے ۔ انہیں ایک پورا دن سفر کرنا پڑا تھا اور باری بدل بدل کر چار لڑکے سٹریچر اٹھاتے تھے ۔ تھکنے پر اور چار لڑکے سٹریچر کو کندھا دینے آجاتے تھے ۔ خاتون پر سٹریچر میں گرم کمبل اوڑھا گیا تھا اور کمبل کے اوپر ایک پلاسٹک شیٹ ڈالی گئی تھی تاکہ اوپر سے پڑنے والی برف سے کمبل بھیگ نا جائے ۔

اب تو دور بدل گیا ہے اور انتظامیہ نے ہر پانچ چھے کلومیٹر میں روڈ سے برف ہٹانے کیلئے ایک بلڈوزر رکھا ہوتا ہے اور بحرین کالام روڈ برف کی وجہ سے کم ہی بند ہوتا ہے ۔ لیکن پہلے جب برف زیادہ ہوجاتی اور گلیشیرز آجاتے تھے تو یہ روڈ مہینوں بند ہوتا تھا ۔ ایسے میں علاقے کی مساجد میں اعلانات کر کے لوگ ایک دن معین کرکے سارے مرد گھروں سے بیلچے لیکر نکلتے تھے اور تین چار سو افراد روڈ سے برف ہٹاکر اسے آمد و رفت کیلئے بحال کرتے تھے ۔ تیس پنتیس کلومیٹر کے اس فاصلے میں لوگوں کو پہاڑ جتنے گلیشیرز کاٹ کر بھی راستہ بنانا پڑتا تھا ۔ دو ہزار دس کے سیلاب میں جب یہ روڈ دریا برد ہوگیا تھا تو تب بھی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت روڈ بنایا ۔

میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ گاڑیاں مری کی بجائے کالام میں اس طرح پھنسی ہوتیں تو لوکل لوگ ان سیاحوں کو رات گاڑیوں میں گزارنے ہی نا دیتے اور انہیں اپنے گھروں میں لیجاتے ۔ میں یہ نہیں تسلیم کرسکتا کہ بحرین سے کالام تک روڈ پر ایک یا ایک سو گاڑیاں پھنس جائیں اور دور دراز کی وادیوں سے لوگ اتر کر ان سیاحوں کی مدد کو نا آئیں ۔

جیو پر ابھی ایک خاتون سیاح بتا رہی تھی کہ اس نے مری میں ساتھ آئے سانس کی تکلیف میں مبتلا ایک مریض کیلئے لوگوں سے گرم پانی کا ایک گلاس مانگا تو وہ ہیٹر اٹھا کر لے گئے اور پانی نہیں دیا ۔ سیاح مری والوں کی بے حِسی سے بلک کر رہ گئے ہیں ۔ جس کمرے میں باتھ روم تک نہیں وہ بھی پچیس ہزار رینٹ پر دیا گیا۔۔۔۔۔

مانا کہ کمرشلزم میں یہی ہوتا ہے اور پیسے بنانے والوں کیلئے پیسے سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہوتا ۔ لیکن جو کفر مری میں ہورہا ہے ایسا کالام والے کالام میں کبھی نا ہونے دیں ۔ کالام جتنا بھی کمرشل ہوجائے کالام کے لوگ کالام کے کاروباری ماحول کو اتنا بے حِس ہونے کبھی نا دینگے ۔ ویسے بھی کالام میں سیاحوں کیلئے "مہمان" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور آئے ہوئے لوگوں کو وہاں کوئی بھی ٹورسٹ یا سیاح نہیں کہتا ۔ اس لفظ میلمہ(مہمان) کیساتھ ایک پوری ثقافت جُڑی ہے جو مہمان کیلئے جان تک دینے پر یقین رکھتی ہے ۔ خدا نا کرے لیکن اگر سیاحوں کیساتھ ایسا کرائسز کالام یا بحرین میں پیدا ہو اور وہاں کے ہوٹل والے اس کرائسز میں سیاحوں کیساتھ ایسی زیادتی کرنا شروع کردیں تو لوکل لوگ ہوٹل والوں کا مار مار کر بھرکس نکال دینگے ۔ مری کے یہ کیسے بے حِس لوگ اور کیسے ہوٹل والے ہیں؟

اعجاز عدیم ۔ Ijaz Adeem