گزشتہ دنوں مری میں انتہائی سنگین صورتحال کے پیش نظر ہونے والے افسوسناک حادثے کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ اس واقعہ کی قصور وار سراسر انتظامیہ ہے اور بیچاری عوام پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ انتظامیہ ہی کی غفلت اور بروقت حفاظتی اقدامات نا کرنے کرنے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں اور کس جگہ ہماری انتظامیہ اپنی انتظامی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہی ہے؟ کس شعبہ میں حکومتی مشینری اخلاص سے اور واقعتا اپنا کام سمجھ کر خدمت کر رہی ہے؟ کوئی ایک ایسا ادارہ بتا دیں جو مکمل طور پر عوامی بھلائی کو مد نظر رکھتے ہوئے اقدامات کر رہا ہو۔ فوج سے لیکر عدلیہ تک پولیس سے لیکر ہر چھوٹے بڑے ادارے تک، کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں جن کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ وہ عوام کو اپنی سروسز اچھے انداز سے پہچا رہا ہو۔ ہر جگہ سرکاری ملازمین بھاری بھرکم تنخواہیں وصول کر رہے ہیں لیکن جب بات کام کی آتی ہے تو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ اس ملک میں عوام خود اپنی مدد آپ کے تحت سروائیو کر رہی ہے۔ قوم کے ہر ہر فرد کو معلوم ہے کہ انتظامیہ نامی چڑیا کبھی بھی انکی مدد کرنے نہیں آئے گی۔ بلکہ اگر کسی مسئلہ میں انتظامیہ کا عمل دخل ہو جائے تو عوام کے ذہنوں میں پہلا خیال یہ آتا ہے کہ لو جی اب کام خراب ہو گیا!

اب جبکہ انتظامی لااہلی و کرپشن اس حد تک بدیہی ہو چکی تو انتظامیہ سے کسی قسم کی امید رکھنا یا کسی وقوعے پر اسکی غفلت کا رونا دھونا مچانا بالکل عبث کام ہے۔ یہاں ہر فرد اپنی اور اپنے آس پاس کے لوگوں کی حفاظت خود کر رہا ہے۔
اب آتے ہیں مری میں ہونے والے حادثے کی طرف، انتظامیہ کو قصور وار ٹھہرانا تو ہے ہی فضول تو میرے خیال میں اس مسئلہ میں سو فیصد قصور وار خود عوام ہے۔ ان لوگوں کی غلطی ہے جو اس خراب موسم میں بنا کوئی حفاظتی تدابیر اپنائے اپنے معصوم بچوں کو لیکر اس موت کی نگری میں چلے گئے۔ سیر و سیاحت ایک اچھا اور پسندیدہ عمل ہے لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بنا کچھ سوچے سمجھے آپ موت کے منہ میں پہنچ جائیں۔ آج کے اس جدید دور میں سب کچھ اتنا آسان ہو گیا ہے۔ مواصلات کا نظام موسم کے احوال اور قیام و طعام کی سہولتوں نے سفر کو انتہائی آسان بنا دیا ہے۔ لیکن معاملات سنگین اس وقت ہوتے ہیں جب بنا کسی سے مشورہ کئے انتہائی لا پرواہی کا کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا جاتا ہے۔
سب جانتے ہیں موسم خراب چل رہا ہے اول تو آپ کو چھوٹے بچوں کے ساتھ جانے کا رسک اٹھانا ہی نہیں چاہئے لیکن اگر آپ نے ٹھان ہی لی ہے تو کم از کم حفظ ماتقدم کے طور پر کچھ ضروری چیزوں کا ہی خیال کر لیا جائے۔ میرا سیاحت کے ساتھ پروفیشنلی تو نہیں لیکن شوق کی حد تک تعلق ضرور ہے۔ تقریبا آدھا شمالی پاکستان گھوم چکا ہوں اور کئی چھوٹے موٹے ٹریک بھی کر چکا ہوں۔ لیکن اول دن سے آج تک جب بھی کہیں جانا ہو تو پہلے اس جگہ کی مکمل معلومات، آنے والے دنوں میں موسم کے احوال اور ہر قسم کے ممکنات پر غور و خوض کر کے نکلتا ہوں۔ ابھی دو دن پہلے ایک جاننے والے کراچی سے اپنی فیملی کو لیکر مری ایوبیہ کی غرض سے اسلام آباد پہچے۔ جیسے ہی مجھے معلوم ہوا میں نے مری جانے سے قطعا منع کر دیا اور متبادل کے طور پر کشمیر کی جانب ایک موزوں پلان ترتیب کر کے دیا۔ سیزن کے دنوں میں مری وغیرہ جیسی ٹرینڈ کی جگہوں پر جانا نری حماقت ہے۔ اگر آپ کسی جان پہچان کے بندے سے مشورہ کر لیں تو مری سے ہزاروں گناہ اچھے اور پرسکون مقامات موجود ہیں۔

غرض مری والے افسوسناک حادثے میں انتظامیہ کو دوش دینے کے بجائے لوگوں میں اس حوالے سے شعور پیدا کرنا چاہیے۔ جانے والے چلے گئے لیکن اپنے پیچھے ہمیشگی کی صف ماتم بچھا گئے۔ اپنی اور اپنوں کی جانوں کی قدر کریں۔ یہ زندگی اتنی سستی نہیں کہ آپ اسے محض سیاحت کی حوالے سے کئے گئے غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھا دیں۔ واقعات ہوتے ہیں اور چند دن بعد بھلا دئیے جاتے ہیں۔ لیکن اگر اس موقع پر سبق حاصل کر لیا جائے تو مستقبل میں مناسب فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔
جو بیچارے لوگ اس حادثے میں اپنی جانوں سے گئے اللہ تعالی انکی گناہوں سے درگزر فرما کر مغفرت فرمائے۔ لواحقین کو بہت زیادہ صبر جمیل عطا فرمائے۔ چھوٹے بچوں سمیت پوری فیملی کا یوں شہید ہوجانے کا کتنا اثر ہوتا ہے یہ وہی سمجھ سکتے ہیں جن کے وہ لوگ اپنے تھے۔ لہذا اپنی حفاظت کریں اور اپنے پیاروں کی فکر کریں جانے کتنے لوگوں کی زندگیاں آپ سے جڑی ہیں ۔۔۔
(حذیفہ محمد قاسمی )

image