2 yrs ·Translate

عقلائی گفتگو اور محافل

میرے دوستوں کے گروپ میں دو بھائی میرے عقیدت مندوں میں شامل ہیں۔ ان کے ساتھ مزہب فلسفہ اور مختلف موضوعات پر گفتگو رہتی ہے۔ یہ ان کی علم دوستی ہے جو مجھ جیسے طالب علم کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کی نانی کے انتقال پر تعزیت کے لیے ان کے گھر جانا ہوا۔ ان کے ڈرائنگ روم میں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ایک چھوٹی سی لائبریری بھی تھی جس میں سے وہ کتابیں نکال نکال کر مجھے دکھا رہے تھے۔ کچھ کتابوں پر میں نے تبصرہ بھی کیا اور کچھ نئی کتابوں کے نام ان کو بتائے۔

انہوں نے کچھ سوالات خاکسار سے کیے جس کے میں نے طالب علمانہ جواب دیے۔ ایک بات انہوں نے مجھے بتائی کہ اب ہمیں محافل میں مزا نہیں آتا۔ لوگ بس انٹرٹینمنٹ اور پیسے کمانے کی باتیں کرتے ہیں۔ یا پھر سب اپنے اپنے موبائل میں لگے رہتے ہیں اور سوشل میڈیا سے محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔

میں نے عرض کی کہ اب سالوں سے عقلائی گفتگو سننے اور پڑھنے کے بعد آپ لوگوں کی اپروچ بلند ہوگئی ہے۔ اسی لیے اب آپ لوگوں کو سطحی گفتگو پسند نہیں آتی ہے۔محرم میں مجالس کا علمی معیار اب حد سے زیادہ پست ہے اس وجہ سے اب آپ لوگ ان میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو محافل میں مزا نہیں آتا۔ کوشش کریں کہ اپنے گھروں پر علمی محافل منعقد کریں چاہے وہ آن لائن ہوں۔

میں چھوٹا سا تھا تو شام کو پی ٹی وی کی نشریات چار بجے سے شروع ہوکر رات گیارہ بجے تک جاری رہتی تھیں۔ جس میں سے صرف ایک کارٹون اور ایک ڈرامہ میری تفریح کا زریعہ تھا

صرف ڈرامے دیکھنے کی وجہ سے لوگوں کا مسرت کا لیول کوئی پچاس منٹ کا تھا۔ یعنی ڈوپامائن جو ہمارے دماغ میں نیورو ٹرانسمیٹر ہے وہ جب جاری ہوتا تھا یا سگنل بھیجتا تھا تو ہماری خوشی ، خیریت اور راحت کا دورانیہ پچاس منٹ کا تھا ۔ یاد رہے کہ ڈوپامائن بقا کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔

آج ٹک ٹاک، شارٹ وڈیوز اور حد سے زیادہ کانٹینٹ جو نیٹ فلیکس اور یو ٹیوب پرموجود ہے اس نے ڈوماپائن کے سگنل پچاس منٹ سے گھٹا کر پانچ سے دس منٹ کر دیے ہیں۔ آپ کسی چیز کو زیادہ دیر دیکھ ہی نہیں سکتے۔ آپ بیزار ہوجاتے ہیں اور کسی اور طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔

اب اگر آج کی نوجوان نسل سے کہا جائے کہ وہ درسی کتب سے ہٹ کر کوئی کتاب پڑھیں تو وہ کوشش کر کے بھی ایک بے رنگی کتاب کے پانچ صفحات بھی نہیں پڑھ پائیں گے۔

ایک سروے کے مطابق جو پاکستان کی بہترین یونیورسٹی این ای ڈی میں کروایا گیا، پچھتر فیصد طالب علموں نے اپنی درسی کتاب کبھی کھول کر نہیں پڑھی۔ وہ نوٹس اور لیکچرز سے کام چلاتے ہیں۔ اور پاس ہونے پر فوکس کرتے ہیں۔ کچھ طالب علموں کو اپنی درسی کتابوں کے نام یاد نہیں تھے۔ اور رائٹر تو کسی کو بھی یاد نہیں تھا کہ کس پروفیسر کی کتاب درسی نصاب میں شامل ہے۔

زیادہ تر طالب علموں کا رجحان پیسہ کمانے کی طرف ہے اور اس کے لیے وہ کوئی بھی فیلڈ اختیار کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

میری عاجزانہ گزارش اپنے تمام دوستوں اور احباب سے ہے کہ اپنے گھروں میں جب بھی موقع ملے، عقلی مباحث اور ادبی گفتگو کا اہتمام کریں۔ چاہے وہ آن لائن ہو یا باقاعدہ محفل ہو جس میں لوگ شریک ہوں۔ جس کے نتیجے میں کوئی اچھی اور معیاری گفتگو سے سب کو مستفید ہونے کا موقع ملے۔

دعا ہے کہ اللہ ہمارے علم میں اضافہ فرمائے اور ہمیں ملحدین کے شر سے محفوظ فرمائے۔

ابو جون رضا