2 Jahre ·übersetzen

مسکان خان کی ویڈیو دیکھی ۔ اس میں چند نکات قابل غور ہیں ۔ سب سے پہلے تو دو قومی نظریے کا وہ قاتل رنگ جو ایک صدی گزرنے کے بعد دھیما پڑنے کی بجائے مزید گہرا ہو رہا ہے ۔ ایک لمحے کے لیے رک کر اپنے قائدینِ آزادی کی روح کو سلام کرنے کے ساتھ اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا بنتا ہے ۔
دوسری بات مسکان خان کی وہ جرات جو اس کے داخل ہونے ، چلنے اور نعرہ لگانے میں اتنی واضح جھلک رہی تھی کہ اس پر ہم جیسے کئی پین وارئیرز کے نام نہاد قلمی جہاد کو قربان کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہے ۔ اللہ کریم اس کی اس جرات کو پوری قوم تک پھیلائے ۔ آمین
تیسری بات بڑی خوفناک ہے ۔ اگرچہ گلوں میں گیروے پٹکے ڈالے ہوئے لوگ سب مشتعل تھے ، مذہبی جنون کے ہانکے ہوئے تھے ، زیادہ تھے اور چارجڈ بھی تھے لیکن پھر بھی اتنے ناقابل ضبط نہ تھے کہ ایک نہتی ، اکیلی اور غیر مذہب کی لڑکی پر حملہ آور ہوسکتے اور اسے اس طرح کا نقصان پہنچا سکتے جس طرح کا نقصان پہنچائے جانے کا خطرہ اس طرح کی صورت حال میں ہمارے ہاں موجود رہتا ہے ۔
چوتھی بات ان مشتعل اور تنگ نظر بلوائیوں کے لیے ہے کہ وہ برقع پوش لڑکی موٹر سائیکل چلا کر اکیلی ایک ماڈرن تعلیمی ادارے میں پورے وقار کے ساتھ سر اٹھا کر تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل ہوئی ہے تو کیا اس کے برقعے کو کسی بھی زاویے سے اس پر جبر قرار دیا جا سکتا ہے ؟
اور پانچویں بات اس ویڈیو کے بعد سوشل میڈیا کے حالات دیکھ کر دل میں آئی کہ ہم اگر کسی کے اچھے کام کی تعریف کرنا چاہیں بھی تو پہلے اسے اپنے ، مذہب، مسلک ، قوم، برادری میں شامل کرنا ضروری خیال کیوں کرتے ہیں ؟ اچھا کام ہمارے مخالف مذہب یا قوم والے بھی تو کر سکتے ہیں ۔ اور تعریف تو ان کے کیے ہوئے اچھے کام کی بھی ہونی ہی چاہیے ۔ لہذا گلے میں گیروے پٹکے ڈالے ہوئے جے شری رام کے نعرے لگانے والے بلوائیوں کے مقابلے میں تن تنہا گرج کر اللہ اکبر کا نعرہ لگانے والی لڑکی کو شیعہ سنی کے دائرے سے اوپر اٹھ کر سراہا جانا ضروری ہے ۔ اور یہی انسانیت ہے جو مذہبی جنون رکھنے والے بلوائیوں میں بالکل نہیں ہوتی ۔
اکرام اللہ اعظم
9 جنوری 2022

image