کے الیکٹرک کا ادارہ لوگوں کو ذہنی مریض بنا رہا ہے؟

کے الیکٹرک اپنے نظام کو بہتر کرنے کے بجائے کراچی کے لوگوں کو ذہنی مریض بنانے پر تلا ہوا ہے

وفاقی وزیر خرم دستگیر نے گزشتہ دنوں کہا کہ پورے ملک سے لوڈشیڈنگ ختم کردی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یکم مئی سے پورا ملک لوڈشیڈنگ فری ہوچکا ہے۔ وفاقی وزیر کے بیان کے مطابق اگر دیکھا جائے تو کراچی والوں کو آج شدت سے یہ احساس ہورہا ہے کہ واقعی کراچی پاکستان کا حصہ نہیں، ورنہ یہ بات ایک وفاقی وزیر کبھی نہ کہتے۔

کراچی معاشی ہب ہے لیکن اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پانی، بجلی اور گیس بنیادی ضروریات ہیں، تاہم کراچی آج اس بنیادی ضروریات سے یکسر محروم ہوچکا ہے۔ کے الیکٹرک جیسے ادارے کو کراچی پر مسلط کرکے معاشی ہب کا پہلے ہی بیڑہ غرق کردیا گیا۔ اب واٹر بورڈ رہی سہی کسر پوری کرنے

کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی آج بھی بدترین لوڈشیڈنگ سے متاثر ہے۔ یہاں رہنے والے کراچی کی ترقی میں اپنا لہو شامل کررہے ہیں اور بدلے میں انہیں آرام تک میسر نہیں۔ غریب کی زندگی پہلے ہی عذاب ہوتی ہے، کے الیکٹرک اور واٹر بورڈ نے انہیں دہرے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔

 

 

کے الیکٹرک نے جس دن سے بجلی کی تقسیم کا ذمہ اٹھایا اس دن سے لوڈشیڈنگ بدستور جاری ہے، جب کہ اس ضمن میں کے الیکٹرک نے حکومت وقت سے کئی ایسے معاہدے کیے تھے جن کے مطابق وہ بجلی کی فراہمی کو بہتر، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور نئے پلانٹس کی تکمیل کا فریضہ بھی نبھائے گا۔ تاہم یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ اس کا الٹ کردیا۔ بجلی کی فراہمی مزید بدتر کردی، لوڈشیڈنگ میں اضافہ کردیا اور کسی بھی پلانٹ پر ایک پیسہ تک انویسٹ نہیں کیا گیا۔ نظام کی حالت یہ ہے کہ ہلکی بوندا باندی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ تھوڑی گرمی بڑھ جائے تو فیڈرز ٹرپ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ نظام کے الیکٹرک کا اپنا بنایا ہوا ہے جسے وہ دنیا کا سب سے کامیاب اور شاندار نظام کہتا ہے۔ کے الیکٹرک کے مطابق وہ تعلیم، صحت اور دیگر سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ لیکن جب اس سلسلے میں کراچی کے مختلف لوگوں سے معلوم کیا گیا تو کہیں بھی کے الیکٹرک کے تعاون سے ایک اسکول بھی دستیاب نہ ہوسکا۔ صحت اور دیگر سرگرمیوں کا بھی یہی حال ہےکے الیکٹرک کو اگر وطن دشمن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کیوں کہ کے الیکٹرک اپنے نظام کو بہتر کرنے کے بجائے کراچی کے لوگوں کو ذہنی مریض بنانے پر تلا ہوا ہے۔ معیشت کا پہلے ہی جنازہ نکال دیا ہے، اب مزدور طبقے کو اسپتالوں کے چکر لگوانے پر بھی مجبور کردیا ہے۔ کراچی کی زیادہ تر آبادی ایک، دو کمرے کے مکانوں میں رہتی ہے۔ جہاں بنیادی ضروریات پہلے ہی ناپید ہیں۔ ایسے میں لوڈشیڈنگ رہی سہی کسر بھی نکال دیتی ہے۔ چھوٹے اور بند گھروں میں گرمیوں کے دوران حبس کا عالم ہوتا ہے، جہاں کوئی انسان دو منٹ بھی بیٹھنے کے قابل نہیں رہتا۔ تلا ہوا ہے۔


Asim Khan

2 Blog posts

Comments