چین کی خباثت

۔۔؟مغربی ممالک کے مقابلے میں چین کیوں زیادہ خبیث ہے

 مغربی ممالک کے مقابلے میں چین کیوں زیادہ خبیث ہے:

 2000 سے لے کر 2015 تک چین کے مختلف علاقوں میں بے شمار بم دھماکے اور ہنگامے وغیرہ ہوئے، جس میں سینکڑوں کے حساب سے لوگوں کی اموات ہوئیں اور ہزاروں کے حساب سے لوگ زخمی ہوئے، مگر کسی قسم کی خبر کو ذرائع ابلاغ پر نہیں آنے دیا گیا۔ اور بغیر کسی شور شرابے اور تقریریں کیے حکومتی اور ریاستی مخالفین کے خلاف سخت کارروائی کی گئی، جس میں بہت سے عام لوگوں کو بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، خصوصاءً سنکیانگ کے مسلمانوں کو اپنی مذہبی شناخت سے دستبرداری کرنی پڑی تا کہ روزمرہ زندگی میں مسائل کا سامنا کم سے کم ہو۔ 

میں جب بھی چین کا موازنہ پاکستان سے کرتا ہوں، دل ہمیشہ خون کے آنسو روتا ہے، لیکن ایک بات کی خوشی بھی ہوتی ہیں کہ حالات چاہے جیسے بھی ہیں لیکن کم از کم اپنے ملک میں عزت سے اور اپنی مرضی سے اسلام پر عمل کرنے کی آزادی تو ہے۔ کم از کم کوئی ہماری ماؤں بہنوں کو مجبور نہیں کرتا کہ بغیر دوپٹے کے گھر سے باہر نکلیں۔ چین میں اکثر مسلمان کم تعلیم یافتہ ہیں جس کی اہم وجہ جامعات میں حلال کھانے کا نہ ملنا اور ماحول کا غیر اسلامی ہونا ہے۔ جامعہ تو ایک طرف، گیارہویں اور بارہویں کے طلبہ و طالبات کو تعلیم کے دوران پورا ہفتہ دن رات سکول میں رکھا جاتا ہے اور وہاں نہ تو نماز روزے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی حلال کھانے کا انتظام (چند ایک استثنا کے علاوہ) اس وجہ سے اکثر مسلمان اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلواتے۔ جس کی وجہ سے مسلمان گھرانے معاشرتی نظام سے کٹ کر رہ جاتے ہیں اور معاشی ترقی نہیں کر پاتے۔ 

اکثر مسلمانوں نے یہ بتایا ہے کہ دوران تعلیم جامعہ میں اگر وہ گرل فرینڈ نہ بنائیں تو ان کے اساتذہ اور دیگر ذمہ داران ان سے تفتیش کرتے ہیں کہ جوان ہو جانے کے باوجود وہ گرل فرینڈ کیوں نہیں رکھ رہے اور کیا اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ اسلام پر سختی سے عمل پیرا ہیں، تو ایسے لوگوں کو شدت پسند سمجھا جاتا ہے اور ان پر نظر رکھی جاتی ہے۔ 

اتنے سالوں میں آج تک اکا دکا کے علاوہ کسی مسلمان نے کبھی مجھے یہ نہیں کہا کہ وہ اس حکومت کو پسند کرتے ہیں، بلکہ جب ان سے پوچھا جائے کہ کیا اس حکومت کو پسند کرتے ہو؟ تو اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ ہمیں سیاسی معاملات پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ چینی حکومت کا نظریہ یہ ہے کہ ملک چین کی حدود میں بسنے والے تمام لوگوں کو مرکزی حکومت کی پیروی کرنا لازم ہے اور ہم سب ایک ہیں اور سب سے ایک جیسا برتاؤ کیا جائے گا، یعنی کہ حکومتی اداروں میں کسی قسم کا فرق نہیں کیا جائے گا کہ یہ شخص مسلمان ہے تو اس کو حلال کھانے کی ضرورت ہے یا اس کو نماز کا وقفہ دینا ہے یا عیسائی ہے تو اس کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لیے سہولیات مہیا کرنی ہیں۔ یاد رہے کہ اسکول کالج اور یونیورسٹی سرکاری ادارے ہیں اور ان میں کسی قسم کی مذہبی سرگرمی پر سختی سے پابندی ہے۔ یعنی کہ آپ پورا دن سکول، کالج یا یونیورسٹی میں رہتے ہیں مگر آپ نماز نہیں پڑھ سکتے اور اگر آپ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا گیا تو آپ کو یونیورسٹی سے نکال دیا جائیگا۔ میں کتنے ہی پاکستانی طالب علموں کو جانتا ہوں جن کو چین میں جامعہ نے صرف اور صرف داڑھی ہونے کی وجہ سے داخلہ دینے سے انکار کر دیا۔ 

مجھ سے اکثر لوگ چین میں داخلے، کاروبار اور رہائش کے حوالے سے پوچھتے ہیں، ان سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ چین تعلیم اور کاروبار کے لیے اچھی جگہ ہے مگر مستقل رہائش کے لیے بالکل بھی نہیں۔ کیونکہ یہ آپ کو کبھی بھی معاشرے کا حصہ نہیں بننے دیتے (نہ ہی آپ بن سکتے ہیں کیونکہ شراب اور سؤر کے بنا یہاں کوئی میل جول نہیں ہوتا) اور نہ ہی یہ آپ کو قبول کرتے ہیں۔ یہاں کے مقامی چینی مسلمان بھی اکثریتی آبادی سے الگ الگ رہتے ہیں، میں نے اصل دو قومی نظریہ چین میں دیکھا ہے۔ آپ چین ضرور آئیں، علم حاصل کریں، کاروبار کریں اور پھر اپنے ملک واپس چلے جائیں۔ 


Israr Ahmad

1 مدونة المشاركات

التعليقات