دجال ایک فتنہ

دجال کی آمد کے حالات و واقعات کے بارے میں مختصر تاریخی تحریر

دجال ایک فتنہ

تحریر: محمد توقیر عباس

 

دجال کا موضوع بہت اہم، سنجیدہ اور وقت کی ضرورت ہے۔ ہم دجال کے اس دور کی ابتدا میں داخل ہو چکے ہیں جس کی پیشگوئی احادیث میں بھی موجود ہے اور یہود کی روایات میں بھی یہ الگ بات کہ جسے یہودی مسیحا کہتے ہیں وہ دراصل دجال ہے ان کے مطابق دجال یہودیوں کو پوری دنیا میں مقام، عزت اور برتری دلائے گا اور پوری دنیا پر یہودوں کا احترام لازم ہو گا۔

یہودی اپنے مسیحا دجال کے استقبال کی تیاری 2000 سال سے کر رہے ہیں، جیسے اسرائیل نے نیٹو اتحادی افواج سے اس علاقے میں قتل و غارتگری کی جہاں سے دجال ظاہر ہو گا اور وہاں بھی جہاں سے ایسے اہل ایمان اٹھیں گے جو دجال کا مقابلہ کریں گے۔ جواز ورلڈ ٹریڈ سینٹر پہ حملہ بنایا گیا لیکن 4000 کام کرنے والے یہودیوں کا اس دن ٹریڈ سینٹر سے غائب ہونا بہت کچھ عیاں کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مرغد درخت کی اسرائیل میں کثیر تعداد لگائی جا چکی ہے جو یہودیوں کا دوست گونگا درخت کہلاتا ہے۔ عرب سر زمین کے بیچوں بیچ نیوم جیسے ایڈوانس ٹیکنالوجی سے لیس شہر کی تیاری بھی اسی دجال کے استقبال کا شاخسانہ ہے جہاں سے موسم، بارش، ہوا، زلزلے، آندھی طوفان آگ لگانا وغیرہ کنٹرول ہوں گے۔ گریٹر اسرائیل اور نیو ورلڈ آرڈر مطلب دجال کے استقبال کے منصوبے پر کام کی رفتار بہت تیز ہوچکی ہے عرب اونچی اونچی عمارات کے زعم اور عیش و عشرت میں کھو چکے ہیں۔

اب ہم باقاعدہ روایات کے مطابق دجال کے عنوان کا احاطہ کرتے ہیں

قربِ قِیامت کی دس بڑی علامات میں سے ایک علامت “دَجّال کا ظاہر ہونا” ہے، آدم کی تخلیق سے لے کر قیامت قائم ہونے تک کوئی بھی فتنہ دجال کے فتنہ سے بڑھ کر خطرناک نہیں ہے اس کا فتنہ بہت سخت ہوگا۔ اس فتنہ کی بڑائی اور شدّت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہر ایک نبی نے اپنی اپنی اُمّت کو دجّال کے فتنہ سے ڈرایا تھا۔

لفظ دجال دجل سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں “ڈھانپ لینا” “لپیٹ لینا”۔ دجال اس لئے کہا گیا کیونکہ وہ وقت معلوم تک اپنے جھوٹ اور فریب کاری سے اپنے کفر کو لوگوں سے چھپا لے گا یا اپنے باطل لشکر سے زمین کو ڈھانپ لے گا اس لئے اسے دجال کہا گیا اس نام میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دجال اکبر بہت بڑے عالمی فتنوں اور کفر کو شعبدہ بازی کے ساتھ پیش کرے گا اور اللہ کے بندوں کو شکوک وشبہات میں ڈال دے گا۔

دجال عربی زبان میں فریب کار کو کہتے ہیں۔ اس کا نام دجال اس لئے بھی رکھا گیا ہے کیونکہ جھوٹ اور فریب اس کی شخصیت کا نمایاں ترین پہلو ہوگا اس کے ہر فعل پر دھوکا دہی اور غلط بیانی کا سایہ ہو گا کوئی چیز، کوئی عمل اور کوئی قول شیطانی اثرات سے خالی نہ ہو گا۔ دجال کا لفظ عبرانی زبان میں خدا کے دشمن کو کہا جاتا ہے اور دو لفظ “دج” یعنی دشمن اور “ال” یعنی خدا کی ترکیب سے وجود میں آیا ہے۔

دجّال ک ایک معنیٰ بہت زیادہ جھوٹا شخص بھی ہے کیونکہ دجّال حق کے ساتھ باطِل کی جھوٹی آمیزش کرکے پیش کرے گا اس لئے اسے دجّال کہا گیا ہے، وہ اوّلاً خود کو مؤمن ظاہر کرے گا اور لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے گا لیکن پھر نبوّت کا اور آخر کار خدائی کا دعویٰ کرے گا، مشہور ہے کہ اس کی اصل یہود سے ہوگی۔ دجّال دو قسم کے ہیں، چھوٹے دجال اور بڑے دجال۔

چھوٹے دجّال بہت ہوئے اور ہوں گے ہر جھوٹا نبی، ہرجھوٹا مولوی، ہر جھوٹا صوفی جو لوگوں کو گمراہ کرے وہ دجّال ہے بڑا دجّال صرف ایک ہے جو دعویٰ خدائی کرے گا۔

دجال ایک علامتی لفظ بھی ہے جو ہر کفر آمیز اور سیاسی و اقتصادی منحرف تحریک کی طرف اشارہ ہے۔ دجال کسی خاص فرد میں منحصر نہیں بلکہ دجال ایک کلی عنوان ہے جو ہر اس منافق اور دھوکہ باز شخص کو شامل کرتا ہے جو لوگوں کی توجہ مرکوز کرنے کے لئے ہر قسم کے غلط اور ناجائز ذرائع استعمال کرتا ہے۔ الغرض حقیقت چھپانا، دھوکا بازی، چالبازی، حق و باطل کو خلط ملط کرنا، کذب و جھوٹ، غلط بیانی گویا سارے شیطانی منفی اوصاف دجال میں پائے جائیں گے۔

دنیا میں تین بڑے آسمانی مذاہب اسلام، مسیحیت اور یہودیت کے ماننے والے ایک ہستی کا انتظار کر رہے ہیں جو آخری زمانے میں ظاہر ہو گی اور انسانیت کیلئے نجات دہندہ اور مسیحا ثابت ہوگی ہر آسمانی دین میں اس مسیح موعود کا وعدہ کیا گیا ہے لیکن یہودی جس مسیحا کا انتظار اور اہتمام کر رہے ہیں وہ دجال ہو گا اور دجال کا خروج حتمی ہے۔

دجال کو حدیث میں “مسیح الدجال” بھی کہا گیا ہے۔ دجال اکبر کا نام مسیح کیوں رکھا گیا ہے؟ اس بارے بہت سے اقوال ہیں دجال اکبر کو مسیح کہنے کے بارے میں سب سے زیادہ واضح قول یہ ہے کہ اس کی ایک آنکھ اور آبرو نہیں ہو گا۔ بے شک دجال بالکل بند آنکھ والا ہو گا اس پر ایک موٹی “پھلی” ہو گی۔

“یہودی دجال کو رب مانیں گے اور اس کے لشکر کا حصہ ہوں گے لیکن یہودی دجال کو اپنا رب اور مسیحا ماننے میں جھوٹے ہوں گے کیونکہ دجال ان کو آنکھوں سے نظر آ رہا ہوگا حالانکہ رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے۔

دجّال حلیے کے لحاظ سے ایک جوان بھاری بھرکم جسم والا ہوگا، سرخ رنگت، گھنگھریالے بال، قد ٹھگنا، دونوں پاؤں ٹیڑھے، ناک چونچ کی طرح، جسم پہ بالوں کی بھرمار ہو گی، اور ایک آنکھ سے کانا ہوگا اور کانی آنکھ ایسی ہوگی جیسے پھولا ہوالٹکا ہوا انگور کا دانہ جبکہ اس کی ایک آنکھ خون آلود ہوگی، اس کا سینہ چوڑا اور ذرا سا اندر کی طرف دھنسا ہوا ہوگا، دجّال کی پیشانی چوڑی ہوگی اور دونوں آنکھوں کے درمیان کفر” یعنی کافر لکھا ہوا ہوگا جسے ہر مسلمان پڑھ سکے گا چاہے اسے پڑھنا آتا ہو یا نہ آتا ہو۔

دجال کا ظہور سختی اور قحط کے زمانے میں ہو گا۔ دجال کے خروج سے پہلے درخت پھل دینا بند کر دیں گے۔ دریا، جھیل، چشمے خشک ہو جائیں گے۔ دجّال کے نکلنے سے تین سال پہلے ہی دنیا میں عام قحط پھیل جائے گا ، پہلے سال آسمان ایک تِہائی بارش اور زمین ایک تِہائی پیداوار روک لے گی، دوسرے سال آسمان دو تِہائی بارش اور زمین دو تِہائی پیداوار جبکہ تیسرے سال آسمان ساری بارش اور زمین ساری پیداوار روک لے گی، حتّٰی کہ آسمان شیشے کا اور زمین تانبے کی ہو جائے گی، چوپائے ہلاک ہوجائیں گے، فتنے اور قتل و غارت گری عام ہوجائے گی، آدمی ایک دوسرے کو قتل اور جِلا وطن کر رہے ہوں گے۔ غِذائی قحط کے علاوہ عِلمی و روحانی قحط بھی برپا ہوگا، دین کے سلسلے میں لوگوں میں ضُعف پیدا ہو چکا ہوگا عُلَما اور دیندار لوگوں کی قلت ہوگی۔

دجال شام اور عراق کے درمیان ایک راستے خُلّہ پر نمودار ہو گا۔ دجال اکیلا نہیں ہو گا بلکہ اس کے ساتھ اس کے پیروکار بھی ہوں گے جن کی اکثریت یہودی اور عورتیں ہوں گی۔ دجال کے ساتھ اصفہان کے ستر ہزار یہودی ہوں گے جو ایرانی قیمتی چاردیں اوڑھے ہوئے ہوں گے۔ یہود کے ہاں اس میسح کو آل داؤد علیہ السلام میں سے مانا جاتا ہے۔ حقیقتاً یہودی جس مسیح کا انتظار کر رہے ہیں اور جس ظہور کیلئے تیاریاں کر رہے ہیں وہ یہی دجال ہو گا۔

دجال اپنے ظہور کے بعد ہر طرف فتنہ وفساد برپا کرے گا۔ اہل ایمان سخت پریشانی اور تنگی کے عالم میں شام کے جبل “دخان” پر پناہ لیں گے۔ دجال وہاں آکر سخت محاصرہ کر لے گا۔ مومنوں کو بہت سخت مشقت اور تکلیف میں ڈال دے گا پھر فجر کے وقت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے وہ مومنوں سے کہیں گے کہ اس خبیث کذاب کی طرف نکلنے سے تمہارے لیے کیا چیز مانع ہے؟ مومن کہیں گے کہ یہ شخص جن ہے اس کا مقابلہ مشکل ہے۔ دجال کی شعبدہ بازی دیکھ کر بعض مومن دجال کو جن سمجھنے کا گمان کریں گے۔

کچھ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ خردجال ایک جزیرے سے نکلے گا یعنی گدھے پرسوار ہو گا اور مخلوق اس کے پیچھے چلے گی لیکن وہ دجال کے فتنہ سے بچنے کیلئے سعی نہیں کرتے اور خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں افسوس کہ وہ دجال کو دیکھ کر بھی پہچان نہیں سکیں گے اور قیامت کو جب دجال کو دیکھیں گے تو کہیں گے عجیب بات ہے اس کو تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا لیکن اس کو سمجھے نہ تھے مگر افسوس کہ اس وقت کچھ نہ ہو سکے گا۔

دجال سب سے پہلے خود کو نبی کہے گا پھر خدائی کا دعویٰ کرے گا اپنے پیدا کردہ شکوک میں انسانیت کو پھانستا چلا جائے گا۔ اپنے آپ کو دجال کی بجائے خدا کہے گا۔ جب دجال لوگوں کے سامنے آئے گا اور رب ہونے کا دعویٰ کرے گا تو لوگ نہیں مانیں گے لیکن دجال ان کے گزشتہ مردگان جو قبروں میں خاک ہو چکے ان کو زندہ کر کے دکھائے گا اور اپنے لشکر کے ساتھیوں کو حکم دے گا کہ ان لوگوں کے بیٹوں کی شکلیں اختیار کرکے ان کے سامنے آؤ اور ان سے ان کے بیٹوں کی گزشتہ باتیں کرو وہ ایسا ہی کریں گے۔ جب لوگ یہ شعبدہ بازی دیکھیں گے تو دجال کے رب ہونے کو قبول کر لیں گے۔ دجال لوگوں سے کہے گا اگر میں تمہارے باپ اور ماں کو تمہارے لیے دوبارہ زندہ کروں تو تم کیا کروگے؟ کیا تم شہادت دو گے کہ میں تمہارا خدا ہوں۔ جاہل لوگ کہیں گے ہاں! چنانچہ شیاطین ان لوگوں کے ماں اور باپ کے روپ میں اس کے سامنے آجائیں گے اور کہیں گے “ہمارے بیٹے اس کا حکم مانو یہ تمہارا خدا ہے” اور اس طرح وہ لوگ دجال کے لشکر میں شامل ہوکر مومنین کے ساتھ جنگ کریں گے اور جب عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا ظہور ہو گا تو یہ لوگ ان کے ہاتھوں مارے جائیں گے اور جہنم کا ایندھن قرار پائیں گے۔

دجال کو بے پناہ قوت حاصل ہوگی۔ وہ آدمی کو مار بھی سکے گا اور زندہ بھی کر سکے گا۔ جو بھی اس کے سامنے سر اٹھائے گا اسے مار دے گا اور پھر زندہ کرکے دنیا کو دکھائے گا اور دیکھنے والوں کا اعتقاد دجال میں ہو جائے گا۔ اس کے پاس آگ اور پانی ہو گا جو آگ ہو گی وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور جو پانی ہو گا وہ آگ ہوگی۔ دجال کے پاس روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کا دریا ہو گا مطلب پانی اور خوراک وافر مقدار میں ہو گی۔ تمام زندگی بخش وسائل جیسے پانی، آگ، ہوا اور غذا اس کے قبضے میں ہوں گے۔ اس کے پاس بے تحاشہ دولت ہو گی زمین اپنے خزانے اگل دے گی تمام عالم پر دجال کا قبضہ ہو گا۔ اس کی دسترس تمام قدرتی وسائل پر ہو گی جیسے بارش، فصلیں، قحط و خشک سالی، طوفان و آندھی وغیرہ وہ ایک نقلی جنت اور دوزخ اپنے ساتھ لائے گا۔ وہ زندگی اور موت پر جعلی طور پہ قدرت رکھتا ہو گا۔

دجال 40 دن حکومت کرے گا جن میں سے ایک دن ایک سال کے برابر، دوسرا دن ایک ماہ کے برابر اور تیسرا دن ایک ہفتے کے برابر جبکہ باقی ایام سال کے عام دنوں کی طرح ہوں گے اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہو گا۔مسلمانوں کے ہاں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو ہی مسیح موعود کا درجہ حاصل ہے۔

ان 40 دنوں میں دجّال اپنے گدھے پر سُوار ہو کر ساری دنیا کا چکر لگائے گا ، گدھے کا جسم اتنا بڑا ہوگا کہ دونوں کانوں کا درمیانی فاصلہ چالیس ہاتھ کے برابر ہوگا اور اس کے گدھے کی رفتار کا یہ عالَم ہوگا کہ ایک قدم اُٹھائے گا تو ایک لمبی مسافت طے کرے گا اور رُوئے زمین کا کوئی میدانی، صحرائی اور پہاڑی علاقہ ایسا باقی نہیں بچے گا کہ جہاں وہ نہ جائے، مگر مسجد الحرام مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی مدینہ منورہ میں داخل نہ ہو سکے گا۔ مدینہ کے باہر دلدلی زمین میں پڑاؤ کرے گا۔ اس دوران مدینہ منورہ میں زلزلے کے تین زبردست جھٹکے آئیں گے جس کی وجہ سے ہر کافر اور مُنافق مدینہ سے بھاگ نکلے گا اور دجّال ان کو لقمہ تر کی طرح نگل لے گا۔ اس روز مدینہ منورہ ہر منافق اور فاسِق مرد و عورت سے خالی ہوجائے گا اسی لئے اس دن کا نام یومُ الخلاَّص بھی ہے اسی اثناء میں ایک صاحب ایمان دجال کے لشکر سے گزر کر دجال تک پہنچیں گے دجال کو دیکھتے ہی وہ چیخ کر کہیں گے “میں نے تجھے پہچان لیا تو ہی دجال خبیث ہے تیرے ہی خروج کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی تھی”۔ یہ سن کر دجال غصے سے پاگل ہو جائے گا اور اس بندہ مومن کو قتل کرے گا پھر لوگوں سے کہے گا کہ اگر میں اسے زندہ کردوں تو میرے خدا ہونے پہ یقین کرو گے؟ لوگ کہیں گے “ہاں”۔ تو دجال بندہ مومن کو زندہ کرے گا تو بندہ مومن کہے گا “اب تو مجھے پختہ یقین ہو گیا ہے کہ تم ہی دجال ہو” لیکن دجال اب کی بار بندہ مومن کا کچھ بگاڑ نہ پائے گا۔

اس کے علاوہ دجال بیتُ المقدس فلسطین اور مسجد کوہِ طُور سینا مصر جو حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے تعمیر کی تھی پر بھی نہیں جا سکے گا۔

دجال آخری بار اردن کے علاقے “افیق” نامی گھاٹی میں نمودار ہو گا۔ مومنوں اور دجالی لشکر کے درمیان جنگ ہو گی جس میں وہ ایک تہائی مومن شہید ہوجائیں گے اور ایک تہائی کو شکست ہو گی۔ جو لوگ دجال یا اس کے حواریوں کے ہاتھوں شہید ہوں گے ان کی قبریں اندھیری رات میں چمک رہی ہوں گی اور ان کا شمار افضل ترین شہداء میں ہو گا۔ جب رات ہو جائے گی تو بعض مومنین کہیں گے کہ تمہیں اپنے رب کی خوشنودی کیلئے اپنے شہید بھائیوں سے جا ملنے میں اب کس چیز کا انتظار ہے تو فجر ہوتے ہی وہ دجال سے جنگ کیلئے روانہ ہو جائیں گے ایسے میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو اپنے سامنے پائیں گے صاحب ایمان عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت جان کر نماز ان کے ساتھ پڑھیں گے۔ نماز سے فارغ ہو کر عیسیٰ علیہ السلام ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمائیں گے ” میرے اور دشمن خدا یعنی دجال کے درمیان سے ہٹ جاؤ”۔ دجال عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام کو دیکھتے ہی ایسا پگھلے گا جیسے دھوپ میں چکنائی پگھلتی ہے جیسے پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔ جب حضرت عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام نازل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ دجال اور اس کے لشکر پر آسمان سے عذاب نازل کردے گا اور ان کو زمین میں دھنسا دے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے دجال اور اس کے لشکر پر مسلمانوں کو مسلط کر دے گا اور مسلمان سب دجالی لشکر کو قتل کر دیں گے۔

چنانچہ وہ ان سب کو قتل کر دیں گے۔ حتیٰ کہ شجرو حجر بھی پکاریں گے کہ اے اللہ کے بندے! اے رحمٰن کے بندے! اے مسلمان! یہ یہودی ہے۔ اسے قتل کر دے۔ غرض اللہ تعالیٰ ان سب کو فنا کر دے گا اور مسلمان فتح یاب ہوں گے۔

آج اگر ہم اس دنیا کو دیکھیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ جیسے لوگ دجال کے پیروکار ہیں خدا سے بیزار ہیں ، خدائی دین سے بیزار ہیں، خدائی تعلیم سے بیزار ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں خواہ چین ہو یا چاپان، عرب ہو یا ہند، ایشیا ہو یا یورپ، امریکہ ہو یا افریقہ، آسٹریلیا ہو یا نیوزی لینڈ، پاکستان ہو یا ہندوستان یا کوئی بھی جگہ، آپ کو صاحب ایمان بندہِ مومن بمشکل نظر آتا ہے۔ یوں لگتا جیسے ساری دنیا دجال کے فتنے میں مبتلا ہے اور دجال کی آمد کا اہتمام و انتظام ہو چکا ہو۔

بسیار تلاش کے بعد بھی کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو موت کو یاد کرتا ہو، انسان کے انجام پہ غور کرتا ہو، مکر وفریب سے بچتا ہو، ریا کاری و اخلاق رذیلہ میں نہ مبتلا ہو۔ عبادت گاہیں ویران ہیں شیطان گاہیں آباد ہیں۔ قبر بھولی ہوئی ہے خدا یاد نہیں۔

ایسے میں صاحب ایمان کی یہ علامات یہ ہیں کہ وہ اس دجال کے بھنور میں گرفتار نہ ہو گا، اس کا دل عالم عقبی میں ہو گا، اسے موت یاد ہو گی، دنیاوی ضرورت کو زندگی گزارنے کیلئے حاصل کرتا ہو گا اور اللہ پر توکل رکھتا ہو گا۔


Touqir Maqbol

3 Blog posts

Comments