رزق ، رازق کا تُحفہ ہے ، قدر کیجئیے !

انسان اگر سوچے تو اپنے ہی گرد و پیش کے واقعات بھی ایسے بہترین استاد ثابت ہوتے ہیں کہ انکا سکھایا گیا سبق زندگی بھر نہیں بھولتا، ایسا ہی ایک برسوں پرانا واقعہ جس ?

انسان اگر سوچے تو اپنے ہی گرد و پیش کے واقعات بھی ایسے بہترین استاد ثابت ہوتے ہیں کہ انکا سکھایا گیا سبق زندگی بھر نہیں بھولتا،  ایسا ہی ایک برسوں پرانا واقعہ جس سے اب آ کر سبق سیکھا وہ یہ کہ ابھی ہم حیدرآباد میں رہائش پذیر تھے امی (اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔) ہوم لوَر خاتون تھیں کبھی کبھار ہی کسی کے گھر جاتیں ، خواتین  اُنکی اس عادت سے واقف تھیں لہذا امی کے کم کم جانے کی شکایت کئے بغیر اکثر خود ہی ہمارے گھر آ جایا کرتیں اور یوں گھر میں رونق کا سماں رہتا ۔ امی کی ایک سہیلی تھیں انکے شوہر سرکاری عہدے پر فائز تھے ایک بیٹی دو بیٹے تھے اور تینوں ہی ایسے خوبصورت اور گپلو گپلو سے کہ دیکھتے ہی پیار کرنے کو جی چاہے۔ ہر بندہ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتا ، خواتین ان سے ملنے میں فخر سمجھا کرتیں انکے بچوں کو بھی بڑی محبت سے پکارا جاتا۔ انہوں نے امی کو اپنی بہن بنایا ہوا تھا اکثر ہمارے گھر آیا کرتیں۔ میں جب بھی کبھی انکے گھر کچھ دینے گئی 

سیب اور آم وغیرہ پیٹیوں میں رکھے رکھے گلتے دیکھے، بچ جانے والی روٹیاں کبھی میز پر الٹی پڑی ہیں تو کبھی کچن کے شیلف پر، ایک بچے نے کوکا کولا یا فانٹا کی ڈیڑھ دو لٹر والی بوتل کو ہی منہ لگایا اور وہیں چھوڑ دی دوسرے بچے نے دوسری کھول لی، وغیرہ وغیرہ

پیسے کی ریل پیل تھی اسلئیے ہر چیز کی بہتات توتھی مگر شاید قدر نہیں تھی ۔ پھر انکل کی طبیعت خراب ہوئی اور وہ ہاسپٹلائزڈ ہو گئے میں نے بہن  کو بتایا کہ “میں نے خواب دیکھا ہے کہ انکل واپس آ گئے ہیں ان کے پاس بہت سے پھولوں کے ہار ہیں مگر وہ پھر بھی خوش نہیں۔”بہن  نے مجھے خاموش رہنے کو کہا اور تاکید کی کہ دوبارہ یہ خواب نہیں سنانا ہے اور اُسی دوپہر انہیں واقعی ہاسپٹل سے گھر لے آیا گیا مگر اسطرح کے کہ وہ وفات پا چکے تھے۔ میرے خوابوں کی سب سے اچھی اورسب سے بری بات یہی ہے کہ اکثر سچ ہو جاتے ہیں اور وہیں سے آنٹی کا وقت بدلا اور ایسا بدلا کہ یقین نہ آتا یہ وہی گھرانہ ہے، انکل کے مکمل واجبات کی ادائیگی بروقت نہ ہونے پر سب سے پہکے وہ معاشی مشکلات کا شکار ہوئیں، ادھار کا لین دین شروع ہوا بڑا بیٹا بری عادتوں میں مبتلا ہو گیا

کبھی کوئی فٹ پاتھ پر پڑا دیکھتا تو کوئی کہیں اور، اکثر لوگ تو ویسے بھی انسان کی ذات سے نہیں انکی حیثیت سے دوستیاں کرتے ہیں لہذا آنٹی کے اردگرد کوئی ایسا نہ تھا جو دفاتر میں انکی مدد کر سکتا، ابو کی پوسٹنگ ان دنوں حیدرآباد سے باہر تھی سو اس سے پہلے کہ دوسرے دو بچے بگڑتے  سب کچھ چھوڑ کر بچوں کو ساتھ لیا اور پنجاب شفٹ ہو گئیں، مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا کہ انکا بڑا بیٹا بھی انکے ساتھ شفٹ ہوا تھا یا نہیں، (بلکہ شاید نہیں ) 

پھر ابو دوبارہ حیدرآباد میں تعینات ہوئے تو امی نے آنٹی کو فون کر کے پنجاب سے بلوایا تاکہ انکے تمام واجبات کلئیر کروا کر انکا جائز حق انہیں دلایا جائے۔

اُن دنوں جب وہ ہمارے گھر کچھ دن رُکیں تو وہی آنٹی جنکی صحت قابلِ رشک ہوا کرتی تھی لگتا سوکھ کے کانٹا ہو گئیں ہوں۔کوئی ملنے ملانا والا رہا نہ دوستیاں نبھانے والا، رات کو اٹھ اٹھ کر بالکونی میں بیٹھی اُس جگہ کو دیکھتی رہتیں جہاں انہوں نے اپنی زندگی کا بہترین وقت گزارا تھا، ایک رات میری آنکھ کھلی اور زیرو کے بلب کی روشنی میں آنٹی کو بالکونی میں کھڑا دیکھا تو وہ بہت پراسرار لگنے لگیں اور مجھے ان سے بہت ڈر لگنے لگا تھا 

تب تو بچپن تھا یہ معلوم نہیں تھا کہ جوان عورت کو تین بچوں کیساتھ معاشی مشکلات میں بیوگی کاٹنی پڑے تو رات سونے کے نہیں رونے کے کام آتی ہے لیکن اب جب کبھی انکی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی کی وجہ سوچتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ واقعی رزق اللہ کی عطا کردہ بہترین نعمتوں میں سے ہے اور اللہ کی دی گئی نعمتوں کی قدر نہ کی جائے تو وہ واپس لینے میں بھی دیر نہیں کرتا شاید اللہ نے بے حساب رزق دیا مگر ناقدری دیکھی تو بے حساب کا حساب اسطرح لینے لگا کہ ایک آزمائش میں ڈال دیا مگر ساتھ ہی  مجھے یہ بھی یقین ہے کہ اللہ کی طرف سے ہر قسم کی آزمائشیں بندے کو خود سے قریب کرنے کے لئیے ہی ہوتی ہیں اور جسے مالک کا قرب عطا ہو جائے اُسے اور کیا چاہئیے۔۔۔!

#FakhraGul


Fakhra Gul

3 Blog posts

Comments