وزیراعظم پاکستان کے نام کھلا خط

امریکہ کی غلامی انگریز کی عملی غلامی سے بدتر ہے اور امریکہ اب مجھ کو روس اور دوسری عالمی طاقتوں کیساتھ الحاق پر نشان عبرت بنانا چاہتا ہے

* آپ کے نمائندے پیس?

میرے ملک کے وزیراعظم جناب قبلہ عمران خان صاحب 

 

جناب عالی!

 

مسئلے کو مسئلہ نہ مانا جائے تو وہ مسئلہ دائمی عارضہ بن جاتا ہے اور اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ آپ اخلاقی طور پر عملا بہتر ہونے کے باوجود لفاظی میں بدتمیزی کر جاتے ہیں اور آپ کا مخالف اخلاقی طور پر عملا کمزور ہونے کے باوجود بظاہر اخلاقی اقدار نبھا کر آپ کو پچھاڑ دیتا ہے 

 

موجودہ صورت حال میں کتنا آسان تھا کہ آپ ان عوامی جلسوں میں بدتمیزی اور غیر اخلاقی گفتگو کرنے کے بجائے صرف پاکستان کے نیشنل ٹی وی پر آ کر ایک تقریر کرتے اور یہ کہہ دیتے کہ

 

*عالمی دنیا ، آپ کو کرائے کا قاتل بنا کر ہر روز جنگ لڑوانا چاہتی ہے اور آپ کو معاشی غلام رکھنا چاہتی ہے 

 

* امریکہ کی غلامی انگریز کی عملی غلامی سے بدتر ہے اور امریکہ اب مجھ کو روس اور دوسری عالمی طاقتوں کیساتھ الحاق پر نشان عبرت بنانا چاہتا ہے 

 

* آپ کے نمائندے پیسوں کے غلام ہیں اور میرے پاس اکثریت نہیں اور نہ ہی اتنا پیسہ ہے کہ میں آپ کے عوامی نمائندوں کو خرید سکوں 

 

* میں ملک کی بقاء ، سرور کائنات کی حرمت ، اس ملک کے خون ، اس ملک کے آرمی کے بچوں کی حفاظت کی خاطر لڑا ہوں لڑتا رہوں گا مگر اس وقت مجھ کو بلیک میل کیا جا رہا ہے 

 

* میرے خلاف ، ملکی پالیسی پارٹنر ان پیس(امن میں ساتھی) کے میرے ایجنڈے پر ق لیگ ، ایم کیو ایم ، اور دیگر الحاقی پارٹیاں ، بشمول مخالف پارٹیوں کے بین الاقوامی ایجنڈے پر تقریبا ایک پیج پر ہیں کہ مجھ کو ہٹا دیا جائے اور آپ کی سالمیت اور خون کا دوبارہ سودا کر لیا جائے

 

اب میرے پاس ایک ہی طریقہ ہے کہ میں ان کے عدم اعتماد کی تحریک کی خاطر ہر راستہ ہموار کر کے ان کے چہروں کو مزید آپ لوگوں کے سامنے آشکار کر دوں اور ایک بار پھر آپ لوگوں کو موقع دوں کہ آپ یا تو مجھ کو اتنی اکثریت دیکر پارلیمنٹ میں بھیجیں کہ میں آپ کی اور آپ کے ملک کی حفاظت کر سکوں ، یا پھر آپ ان لوگوں کے طرز پر زندگی گزاریں کیونکہ میری زندگی کی تو اب شام ہے اور میرے بچوں کا کوئی سیاسی کیرئیر یہاں نہیں ، یہ اب آپ پر ہے کہ آپ اب بلاول و بی بی مریم کی غلامی کو پسند کرتے ہیں ، امریکہ کا حلیف بن کر اپنے آرمی کے بچوں کو مروانا چاہتے ہیں ، آیا روز فرقہ واریت کے نام پر مرنا چاہتے ہیں، یا ایک غیور موت چاہتے ہیں 

ہر دو صورت میں موت اٹل حقیقت ہے مگر ایک زندگی عزت اور غیرت کی زندگی ہے جبکہ ایک ذلت کی زندگی ہے

 

میرے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ اگر کامیاب ہو گیا تو اپنے اپنے حلقہ میں جو جو شخص بک گیا ہے اس کو دوبارہ اگر آپ ووٹ دیتے ہیں تو آپ اس ملک کی عزت کا سودا کرنے والوں میں شامل ہوں گے اور اگر اس ملک کی اکثریت کو اس ملک کا سودا قبول ہے تو یہ اختیار وہ استعمال کر سکتے ہیں 

 

اگر آپ اصولی اور منطقی گفتگو کر کے عوام کو حقیقت سے روشناس کروا دیتے تو ہر دو صورت میں باعزت رہتے ، اگر ہار جاتے تو بھی اگلا الیکشن اپنے نظریات پر کھیلتے اور اگر جیت جاتے تو بھی اگلے دن اپنے ایجنڈے پر کام کرتے ، مگر آپ کی بھونڈی گفتگو اور ناعاقبت اندیش مشیر آپ کو کبھی بھی ایسا مشورہ نہیں دے سکتے جو عزت کی طرف لیکر جائے ، اور انتہائی معذرت کیساتھ آپ ایک بھی عقل مند بندہ اپنی کیبنٹ میں شامل نہ کر سکے اور اب جب آپ کا عدم اعتماد جو کامیاب ہونے اور آپ کے خلاف ہونے کے غالب امکان ہیں کے بعد آپ ان تقریروں کی وجہ سے اپنا اگلا مستقبل بھی داو پر لگا چکے ہیں اور آپ نے کافی بک جانے والے چورن کی دوبارہ سیل لگائی ہے جو اس چورن کے ناکام ہونے پر خود مدلل ہے 

 

آپ اگر ہارے تو اپنی زبان اور بیان اور ہامیان بے ایمان کی وجہ سے ہاریں گے حالانکہ آپ کی ہار یقینا اس ملک کا قوم کا بہت بڑا نقصان ہو گی ، مگر آپ آخر پر اپنی وکالت درست نہ کر سکے اور یہ خمیازہ آپ کو بھگتنا پڑے گا 

اگر آپ ذرا سا تحمل دکھا جاتے اور اس ایجنڈے پر عوام میں ایک تقریر کر جاتے تو ہر ایم این اے ایم پی اے کا سیاسی کیرئیر کا فیصلہ آپ کے حق میں یا مخالف ووٹ دینے پر ہونا تھا اور آپ کے خلاف جانے والے تاریخی میر جعفر بن جانے تھے

✍️ محمد محسن رفیق


Muhammad Mohsin

1 Blog posts

Comments