حکومت ،اپوزیشن،بیانیے اور مستقبل کا لائحہ عمل

پاکستان کی سیاسی صورتِ حال ،اپوزیشن اور حکومتی بیانیہ،مسقبل کا لائحہ عمل

پاکستان کے تمام ادارے ھمیشہ سے اپنے آئینی دائرہ کار میں فرائض انجام دیتے آئے ھیں۔جب بھی عوام کو اس میں کچھ شبہ ھوا ھے باقاعدہ طور پر بذریعہ ذرائع ابلاغ باور کروایا گیا کہ آئینی ذمہ داریوں کے علاوہ ھم کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینے کے روادار نہیں۔ 

خیر آج کل ایک لفظ نیوٹرل زبان زد عام ھے،وزیراعظم صاحب نے تواس کی تعبیر جانور سے کی ھے ،لیکن عرف عام میں اس کا مطلب غیر جانبدار کا لیا جاتا ھے۔ 

تو کیا غیر جانبدار بننے سے پہلے جانبداری کا وجود لازم ھے۔یہ اگر چہ الزام بھی ھوسکتاھے لیکن اپوزیشن بہرحال اس پرمصر ھے ، کہ صرف جانبداری نہیں بلکہ زیادہ جانبداری سے کام لیا گیا ہے۔ 

اور اس کا باقاعدہ آغاز 2011 مینار پاکستان جلسے سے مانتے ھیں۔ 

ان کے مطابق شخصیت سازی سے لے کر میڈیا کمپین،مخالفین کو اداروں،عدالتوں اور میڈیا کے ذریعے دبانے تک مکمل انتظام کیاگیا۔ 

کوئی ایک منہ بھی ایسا کھلا نہ رکھنے کا پورا خیال رکھا گیا جو اختلافی نکتہ نظر بیان کرسکتا ہو۔بنیادی شہری حقوق پامال کئے گئے۔کرائے کے بد زبانوں کو درآمد کیا گیا۔ مصنوعی جذباتی ماحول  بنایا گیا۔اس پر بس نہیں الیکٹیبلز کو ھانک ھانک کر یا باندھ باندھ ،ضمیر کی آواز نکالنے پر مجبور کروایا گیا۔ہانکنے پر تیار نہ ھونے والوں کو محکمہء زراعت سے پینٹیاں لگوائیں گئیں۔  

پہلے چھ مہینےمثبت رپورٹنگ کا علانیہ حاکمانہ مشورہ جاری کیاگیا، اور اس کے بعد فون کالز اور مختلف ھتکنڈوں سے یہی کچھ کروایا جاتا رہا۔عالیہ اور عظمیٰ  سےسگی بہنوں کی طرح مکمل ھم آھنگی کے ساتھ انصاف کے جنازے جلسوں اور کارنر میٹنگز بلوائے جاتے رہے،  کچھ جذباتی مہرے باقاعدہ فریق کے طور پر سامنے آئے،اپنے اور اپنے ادارے  کے عزت کو داغدار کرانے پر تلے رھے۔ 

سوشل و مین سٹریم میڈیا پر باقاعدہ جتھے چھوڑے گئے جو کسی بھی اختلافی رائے رکھنے والے کو سینگوں پر اٹھاکر ھر قسم کے سلوک کے مستحق قرارا دیتے، 

حکومتی نالائقیوں کو کارنامے بناکر پیش کیا جاتارہا ،تا آنکہ فیض آباد دھرنے کے مبینہ منتظمین کے فیض رسانی کا ٹینیور اختتام کو پہنچا۔معیشت کا جنازہ نکالا گیا۔5.6کی گروتھ ریٹ کو مائنس پر پہنچایا گیا،غریب کی زندگی کو  بے دردی کے ساتھ مہنگائی تلے روندا گیا۔جھوٹ کا بازار گرم کیا گیا اور ان سب کو عوام کے لئے ،ملک کے لئے خیر خواھی اور ضرورت قرار دیا گیا۔ 

 

جب کہ حکومت کے مطابق یہ سب کچھ پچھلی حکومتوں کی وجہ سے ہے۔اور اگر وہ مبینہ لوٹ مار کے پیسے واپس لائے تو یہ سب کچھ ٹھیک ھوگا،اگر چہ یہ حکومت کی اپنی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا نے کے مترادف ہے،کہ وہ یہ سب قدرت رکھنے کے باوجود کرتے کیوں نہیں حکومت کا کام دکھڑے سنانا نہیں ھوتا بلکہ وہ اقدامات اور کارکردگی دکھانے کی پوزیشن پر ھوتی ھے۔اب تک حکومت اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں سے کوئی خاص ریکوری کرنے میں کامیاب نہیں ھوسکی ھے، الٹا براڈ شیٹ کیس میں تو حکومت کے 65میلین روپے انتقام کے بھینٹ چڑھانے گئے ۔جس سے یہ تاثر پیدا ھونا بالکل منطقی لگتا ھے کہ حکومت مخالف جماعتوں پر حکومت کے الزامات حقیقت سے تعلق نہیں رکھتے، اور یہ صرف اپنے مخالفین کو دبانے کا ایک ھتکنڈا ھے۔ 

بہر حال اپوزیشن اور حکومت کے اس قضیئے کا فیصلہ وقت اور عوام نے کرنا ھے ۔لیکن بحیثیت قوم اس پر مل بیٹھ کر غور کرنا چاہیے کہ کب تک چند افراد کے پسند و ناپسند ،اور غلطیوں کی سزا قوم کو ملتی رھے گی ۔اور مجموعی طور پر ھم مفاہمت عوام کے فلاح و بہبود اور خوشحالی کو مد نظر رکھ کر فیصلے کرنے کے عادی بنیں گے۔


Muhammad Shahid

2 Blog Postagens

Comentários