الاپ تھم نہیں رہا سُرُود نوچ کھائے گا
تو کیا یہ درد اب مرا وجود نوچ کھائے گا
میں جانتا نہ تھا کہ چُپ رہا کچھ اور دیر تو
مری زبان کو یہی جمود نوچ کھائے گا
ہماری مسکراہٹوں سے ہے زیادہ یہ ہنسی
ہمارے رزق کو تمہارا سُود نوچ کھائے گا
چلوں گا تب بھی کرچیوں نے کاٹ ڈالنے ہیں پیر
رکوں گا تب بھی موسمِ غُنُود نوچ کھائے گا
ہماری بے عقیدگی تمہارے کام آئے گی
بِنائے اعتقاد کو تو زُود نوچ کھائے گا
تمہیں خبر نہیں ملاپ مانتے ہو تم جسے
تمہارا زہن برسرِ شہود نوچ کھائے گا
ہم عشق کر رہے تھے اور ہمیں یہ علم ہی نہ تھا
یہ اطمینان کے سبھی غدود نوچ کھائے گا
احمد شہباز
Like
Comment
Share