جتنا میں نے خان کو ابتک سنا, پڑھا, دیکھا اور سمجھا ہے۔ ۔ ۔ اسکی روشنی میں بس یہی کہوں گا کہ خان ساری کیلکولیشنز کرچکا ہے اور وہ اندرون و بیرون دشمنوں کے دانت گن کر ہی سخت موقف دے رہا ہے۔
تحریک عدم اعتماد والی اوپوزیشن ہو یا مذمت مذمت کی گردان کرتا یورپ و امریکہ ہو۔ ۔ ۔ خان ان سب کو ذہنی طور پر جوتے کی نوک پر بٹھا چکا ہے۔
اب بات چونکہ چناچہ, اگر مگر, لیکن ویکن اور یہ جو ہے وہ جو ہے سے آگے نکل چکی ہے لہذا اب سے معتدلیے اور نیوٹرلیے بھی اپنی خیر منائیں اور اپنی اپنی واضح جانب طے کرلیں کہ کس کی طرف ہیں اور کس کے خلاف ہیں؟
خان کو اب پتہ چل چکا ہے کہ
کون ہیں یہ لوگ؟
اور
کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ؟
بہت خیر منالی بکرے کی ماں نے, اب تو دم پخت بنے گا دم پخت!!!
#سنجیدہ_بات
#آزادیات
#بلال #شوکت #آزاد
چلو یار چھوڑو اب اور کیا کہوں۔ ۔ ۔ اگے تسیں آپو سمجھدار ہو۔
بہرحال تصویر کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ یہ چل رہا ہے کہ میاں خلیفہ اور رانا صاحب کے مابین لین دین کا معاملہ ہوا ہے۔ ۔ ۔
مطلب راناصیب نے کہا ہوگا کہ
اوئے نواز شریف کڈ میری قوم دے پیخے۔ (اوئے نواز شریف نکالو میری قوم کے پیسے۔)
اور میاں خلیفہ نے کہا ہوگا کہ
پیخے۔ ۔ ۔ او ماما کیہڑے پیخے, کادے پیخے؟ ایہہ پیخے کی ہوندے۔ ۔ ۔ کسی ڈش دا نام جے پیخے؟ یار رانے اگلی واری آویں تے ایک پلیٹ پیخے پارسل کیتی لیائیں۔ (پیسے۔ ۔ ۔ او ماموں کون سے پیسے, کیسے پیسے؟ یہ پیسے کیا ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ کسی ڈش کا نام ہے پیسے؟ یار رانے اگلی دفعہ آؤ تو ایک پلیٹ پیسے پارسل لیتے آنا۔)
جب رانا صیب نے یہ سنا ہوگا تو پیچ و تاب کھا کر رہ گئے ہونگے اور کہا ہوگا کہ
چھڈو میاں سانپ۔ ۔ ۔ آؤ سیلفلیسی Selflessy لیتے ہیں۔
اور میاں خلیفہ نے کہا ہوگا کہ
میں قدرتی طور پر ہنسنے سے معذور ہوں لیکن جب "پیخے" کہتا ہوں تو میرا چہرا کھل اٹھتا اے لہذا مجھے کیمرے جانب منہ کرکے ہلکا سا "پیخے" بولنے دینا تاکہ پھوٹو بمباسٹک آئے۔
اور رانا صاحب نے میاں خلیفہ کا منہ دیکھا ہوگا کہ ابھی تو یہ شخص پیسوں کی تعریف سے ناواقفیت جتارہا تھا اور اب۔ ۔ ۔
میاں خلیفہ کو رانا صاحب کی خشمگیں نگاہوں سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ کچھ گندا سوچ رہا ہے میرے بارے میں تو جھٹ بول پڑا کہ
او یار میں دل میں بول لوں گا "پیخے" اور کیمرے پر نما نما مسکراتا نظر آجاؤں گا۔ ۔ ۔ ہیں جی؟
رانا صاحب نے سوچا۔ ۔ ۔ نہیں نہیں انہوں نے آگے کچھ نہیں سوچا بس فرض وخایہ ادا کیا اور ملاقات اختتام کو پہنچائی اور خیریت سے گھر آگئے۔ (اور آکر اپنی جیبیں وغیرہ دو دو دفعہ خود چیک کی ہونگی, پھر بھابھی سے چیک کروائی ہونگی اور پھر آنٹی سے فائنل چیک کے بعد کہا ہوگا کہ الحمدللہ۔ ۔ ۔ جان بچی سو لاکھوں پائے۔)
نوٹ: استاد جی معافی معافی, کنٹرول نہیں ہویا میرے توں۔ ???
#سنجیدہ_بات
#آزادیات
#بلال #شوکت #آزاد
ڈسکلیمر: تحریر خالصتاً ہنسی مذاق اور طنز و مزاح کے پیرائے میں لکھی ہے, اگر کسی نفس کی دل آزاری ہوتی ہے یا کسی کو ایک مخصوص بندے کی بابت زبان اور انداز بیاں پر اعتراض ہو تو وہ معافی مانگ کر برداشت کا کڑوا گھونٹ پینے کی کوشش کرے پر ہمارے جلے دل کے پھپھولے پھوڑ کر توپوں کا رخ اپنی جانب کروانے سے گریز کرے۔
قصہ اک دونمبر میاں اور اک ایک نمبر رانے کا!!!
تو صاحبان, قدردان اور مہربان۔ ۔ ۔
بات کچھ "ایسی" ہے کہ کہانی بڑی "ویسی" ہے لیکن چونکہ اب "چن" چڑھ چکا ہے تو بیان کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
یہ جو تصویر آپ کی بصارت کو خیرہ کر رہی ہے یہ وہ تصویر ہے جو نہ بول رہی ہے اور نہ چیخ رہی ہے بلکہ نہایت ہی گونگی تصویر ہے, بلکہ سمجھ لیں کہ سازشی تھیوریز, اٹکلے, اٹکل پچو باتوں اور گمان کے رنگوں سے عاری بلیک اینڈ وائٹ تصویر ہے, جو جیسا رنگ دماغ میں لیکر بیٹھا ہے وہ ویسا ہی رنگ پھیر کر تصویر سے لطف اندوز بھی ہوسکتا ہے اور سیخ پا بھی ہوسکتا ہے۔
بائے دا وے بلیک اینڈ وائٹ کی اصلاح کو تھوڑا اور elaborate کردوں کہ تصویر کے دائیں جانب بلیک یا ڈارک انرجیز اور کرتوتوں کی حامل شخصیت کھڑی ہے جس کو میں صرف سوچ ہی لوں کسی وقت تو بے ساختہ میرے منہ شریف سے "در لکھ دی نواز شریف" نکل جاتا ہے جبکہ تصویر کے بائیں جانب وائٹ یا برائٹ انرجیز اور اچھے عملوں کی حامل شخصیت کھڑی ہے اور الحمدللہ مجھے ان کا بگڑا ہوا شاگرد ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔
میں بھی ایسی گونگی تصویروں کا رنگساز ہوں تو لو ذرا میری کاریگری بھی چیک کرو۔
دائیں جانب خوابوں کا جنازہ اور حرص و حوس کا نشئی کھڑا ہے جبکہ بائیں جانب خوابوں کی پیدائش اور ان خوابوں کی تعبیر کے لیے سینہ سپر اور کامیابیوں کا نشئی کھڑا ہے۔
دائیں جانب مزاج اور کردار کا Man of Steal کھڑا ہے جبکہ بائیں جانب مزاج اور کردار کا Man of Steel کھڑا ہے۔
دائیں جانب والی شخصیت بجز نفرتوں, کدورتوں, فتور اور منفیت کی پرچارک ہے (حالنکہ بائیں جانب والی شخصیت نے انہیں مل کر بہت نرم خو اور اچھا پانے کا دعوی کیا ہے لیکن ہم اسے حسن ظن اور ان کے خاندانی ہونے کے مارکس دیکر درگزر کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔) جبکہ بائیں جانب والی شخصیت, دائیں جانب والی شخصیت کے بلکل متضاد کردار کی حامل ہے مطلب بائیں جانب والی شخصیت بجز محبتوں, نیکیوں, کھلی ذہنیت اور مثبت کی پرچارک ہے۔
دائیں جانب وہ کھڑا ہے جس کو اب بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے اور اپنے گناہوں کی توبہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن قبر میں ٹانگیں لٹکی ہونے کے باوجود اس بندے نے ملک و ملت کے مفادات میں ٹانگیں اڑانا اور پھنسانا ترق نہیں کیا جبکہ بائیں جانب وہ کھڑا ہے جس کے بارے میں میرا حسن ظن ہے کہ وہ دائیں جانب والے کردار کی حامل شخصیات سے مرعوب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس ملاقات کا مقصد کوئی ذاتی لگ رہا ہے بلکہ انتہائی پروفیشنل بندہ کسی پروفیشنل ملاقات میں جیسا ہوتا ہے ویسا ہی نظر آرہا ہے۔
دائیں جانب والی شخصیت کا یہ اعجاز ہے کہ اگر خانہ کعبہ کا امام بھی اس کے ساتھ حسن ظن اور خاندانی تربیت کی بدولت کھڑا ہو تو عوام کی اکثریت امام صاحب کو بھی چور اور کرپٹ ڈیکلیئر کردے (اسی وجہ سے کل رات جب یہ تصویر بائیں جانب والی شخصیت نے پوسٹ کی تو نیچے کمنٹ باکس میں جہاں طرح طرح کے مثبت کمنٹ آئے وہیں نہایت گھٹیا اور منفی طرز کے کمنٹ بھی آئے تو رانا صیب اب آپ نے گھبرانا نہیں ہے یہ دائیں جانب والی شخصیت کا جیتا جاگتا معجزہ ہے اور کچھ نہیں۔) جبکہ بائیں جانب والی شخصیت کا یہ اعجاز ہے کہ باوجود اختلاف رائے اور متضاد نظریات کے لوگ ان کے ساتھ ملتے اور ساتھ کھڑے ہوتے ہیں تو کسی جانب سے کوئی منفی رائے نہیں آتی بلکہ لوگ ان کی شخصیت سے متاثر ہوکر آتے ہیں۔
دائیں جانب کھڑا بندا خالص کاروباری ذہنیت کا حامل ہے, ایموشن لیس اور کریکٹر لیس جبکہ بائیں جانب کھڑا بندا خالص خوابی کتابی ذہنیت کا حامل ہے, ایموشنل اور سٹرونگ کریکٹر کا حامل اس لیے ان دونوں کو اکھٹے دیکھ کر سچ پوچھو تو اما تکلیف تو ہوئی ہے پر یہ سوچ کر دل کو تسلی دے لی کہ شاید بائیں جانب کھڑے بندے نے باتوں باتوں میں دائیں جانب والے کے کان کے نیچے رکھی ہونگی؟
دائیں جانب کھڑے بندے نے زندگی بھر جتنے صفحے پڑھے ہونگے بائیں جانب والا اتنے صفحے ایک مہینے میں لکھ ڈالتا ہے, ان کا کوئی تقابل نہیں۔
دائیں جانب کھڑے بندے پر ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو شدید فی سبیل اللہ وٹ ہے لیکن بائیں جانب کھڑے بندے کا حلقہ محدود ہے پر کسی شخص کو فی سبیل اللہ وٹ نہیں اس پر۔
دائیں جانب کھڑا بندہ کنفرم اور سرٹیفائیڈ دو نمبری ہی نہیں بلکہ چار سو بیس ہے جبکہ بائیں جانب کھڑے بندے کی بابت ہمارا حسن ظن ہے کہ وہ ایک نمبر اور کھرا بندا ہے۔
قصہ مختصر کہ دائیں جانب۔ ۔ ۔
جاری ہے۔ ۔ ۔