نوواک جوکووچ: ٹینس سٹار نے ویزا منسوخی کے خلاف عدالتی جنگ جیت لی، آسٹریلیا میں داخلے کی اجازت اور فوری رہائی کا حکم
https://www.bbc.com/urdu/world-59922804
نوواک جوکووچ: ٹینس سٹار نے ویزا منسوخی کے خلاف عدالتی جنگ جیت لی، آسٹریلیا میں داخلے کی اجازت اور فوری رہائی کا حکم
https://www.bbc.com/urdu/world-59922804
انڈین میڈیا میں قزاقستان اور یوکرین کی کوریج پر روس کیوں بے چین ہے؟
https://www.bbc.com/urdu/world-59922806
ایک نئے دیو سائی کا جنم
لیجیے، دنیا کی چھٹی ایٹمی طاقت کے دارالحکومت سے 40 منٹ کی مسافت پر نیا دیو سائی بن چکا. برفباری میں وہاں جانے سے پرہیز کریں. آپ کو وارننگ دی جا چکی ہے. ورنہ آپ خود ذمہ دار ہوں گے. اخپل بندوبست!
گورے نے مری 1851 میں بنانا شروع کیا تاکہ ہندوستان کی پگھلا دینے والی گرمی سے جان بچائی جا سکے. تاہم مجھے کالونیل دور کا بھی کوئی ایسا واقعہ نہیں مل سکا، جس میں مری میں برفباری سے 48-24 گھنٹے میں 30 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں. گزشتہ پچاس برس میں جدید دنیا کے کسی بھی دارالحکومت کے آس پاس شاید ایسا واقعہ پیش آیا ہو جس میں گاڑیوں میں بیٹھے بیٹھے لوگ یخ بستہ موت سے ہم آغوش ہوئے ہوں. جنہیں بیس تیس میل کی دوری سے ریسکیو نہیں کیا جا سکا یا ریسکیو کیے جانے کے قابل نہیں سمجھا گیا.
لیکن گورے تو حکمرانی کرنے آئے تھے، شاید کار جہان بانی سے واقف بھی ہوں گے. چابیاں جن براؤن صاحبان کے حوالے کر کے گئے وہ گورنینس نام کی کسی بھی چیز سے ناواقف ہیں. سردی ہو یا گرمی، وہ بس پروٹوکول دینے میں مصروف ہیں اور نوکری پکی کر رہے ہیں.
قوم کو بھی پاگل پن کا چسکہ ہے. جب خبر یہ آئے کہ برفباری سے سڑکیں بند ہیں اور کہرام مچ چکا ہے تو بیوی بچوں کو گاڑی پر بٹھا کر کون نکل بھاگتا ہے؟ مگر قوم کو یہ سمجھایا کس نے ہے؟
مجھے پولینڈ سے، فرانس سے، امریکہ سے، دنیا کے تین چار اور ممالک سے جاننے والے غیر پاکستانیوں نے رابطہ کیا. "عارف، تم اور تمہارے گھر والے سب ٹھیک ہیں؟ ہم نے سنا ہے کہ پاکستان میں شدید سردی کی وجہ سے کوئی واقعہ پیش آچکا ہے. تم لوگ ٹھیک ہو؟" اب میں ان کو کیا بتاؤں کہ یہ موسم سے زیادہ نیتوں کا کمال ہے؟
پھر سب سے کربناک وہ وڈیو فلمیں ہیں جو اس برف زار میں جان ہارنے والوں کی بنائی جارہی ہیں. کیا کوئی ایسا شخص ہے جو اس پر تحریک چلا سکے اور اس ملک خدا داد میں قانون بن سکے کہ، جو دنیا کے اکثر ممالک میں موجود ہے کہ آپ کی مرضی کے بغیر، زندہ یا مردہ وڈیو نہیں بنائی جاسکتی. یہ مرنے والوں کی شدید تضحیک ہے کہ چچ چچ کرتے اور کانوں کو ہاتھ لگاتے، توبہ کرتے تبصرے کے ساتھ گاڑی بھر میں موبائل پھیرو اور مرنے والوں کی پرائیویسی کی ایسی تیسی کرتے ہوئے تماشہ لگا دو. ایسی تصاویر اور فلمیں ٹراما کا باعث بنتی ہیں اور ان پر ہر صورت پابندی ہونی چاہیے.
گھوم پھر کر یہ ایک ایلیٹسٹ معاشرے، اکانومی اور سوسائٹی کا احوال ہے. تقریباً دس لاکھ کے آس پاس خاکی اور سول افسران، سرمایہ کار، زردار، اور ریئل سٹیٹ ٹائیکونز کا معاشرہ جنہوں نے پچیس کروڑ کے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے. یہاں ہیلی کاپٹر بھی ہے، مگر وہ عام بندے اور اس کے خاندان کو بچانے کے لیے پرواز نہیں کرسکتا. اگر نام کے ساتھ کوئی سابقہ یا لاحقہ لگتا ہے تو ٹھیک ورنہ، تاریک راہوں میں یا اپنے پاگل پن کے ہاتھوں مارے جاؤ. گو اہیڈ سکریو یور سیلف.
خیر، یہ سردی، وہ گرمی، یہ گورنینس کی ناکامی اور یہ چند یبوست زدہ الفاظ، سینہ کوبی، چند ٹرانسفر، مرگ انبوہ اور اس کے بعد اگلی ٹریجڈی کا سفر. سوتے ہوئے کو تو بندہ اٹھائے، مگر جاگتے کو کون جگائے؟
اپنی غلطیوں سے نہ سیکھنے والوں کے لیے دائروں کا سفر جاری رہتا ہے.
ہمارے پاؤں الٹے تھے، فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن، بہت پیچھے نکل آئے
عارف انیس
غالباً دو ہزار تین یا چار کے آس پاس کی بات ہے ۔ بحرین کالام روڈ شدید برفباری کے باعث بند ہوچکا تھا ۔ ایسے میں کالام میں غیر ملکی سیاحوں کا ایک گروپ پھنس گیا ۔ یہ مجھے صحیح سے یاد نہیں کہ یہ گروپ تین چار افراد پر مشتمل تھا یا صرف ایک couple تھا ۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ ان گورے سیاحوں میں سے ایک خاتون کافی معمر اور جسمانی طور پر کمزور تھی ۔ روڈ بند ہوچکا تھا اور بحرین تک جانے کیلئے سب کو برف میں تیس پنتیس کلو میٹر پیدل چلنا پڑتا تھا ۔ لیکن اس معمر خاتون کیلئے برف میں چلنا ممکن ہی نہیں تھا ۔ اسی وجہ سے یہ لوگ شدید پریشان اور گھبرائے ہوئے تھے ۔
تب کالام کے دس پندرہ نوجوانوں نے اکٹھے ہوکر ان سیاحوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے اس خاتون کو سٹریچر پر ڈال کر سٹریچر کندھوں پر اٹھائے بحرین تک لیجانے کا منصوبہ بنایا ۔ اور یوں دس پندرہ بہادر نوجوانوں کی یہ ٹولی شدید خراب موسم، خون جما دینے والی سردی اور ہر قدم پر پھسلنے والے برفیلے راستے پر اس خاتون کو سٹریچر پر لٹائے بحرین تک چھوڑ کر آئے تھے ۔ انہیں ایک پورا دن سفر کرنا پڑا تھا اور باری بدل بدل کر چار لڑکے سٹریچر اٹھاتے تھے ۔ تھکنے پر اور چار لڑکے سٹریچر کو کندھا دینے آجاتے تھے ۔ خاتون پر سٹریچر میں گرم کمبل اوڑھا گیا تھا اور کمبل کے اوپر ایک پلاسٹک شیٹ ڈالی گئی تھی تاکہ اوپر سے پڑنے والی برف سے کمبل بھیگ نا جائے ۔
اب تو دور بدل گیا ہے اور انتظامیہ نے ہر پانچ چھے کلومیٹر میں روڈ سے برف ہٹانے کیلئے ایک بلڈوزر رکھا ہوتا ہے اور بحرین کالام روڈ برف کی وجہ سے کم ہی بند ہوتا ہے ۔ لیکن پہلے جب برف زیادہ ہوجاتی اور گلیشیرز آجاتے تھے تو یہ روڈ مہینوں بند ہوتا تھا ۔ ایسے میں علاقے کی مساجد میں اعلانات کر کے لوگ ایک دن معین کرکے سارے مرد گھروں سے بیلچے لیکر نکلتے تھے اور تین چار سو افراد روڈ سے برف ہٹاکر اسے آمد و رفت کیلئے بحال کرتے تھے ۔ تیس پنتیس کلومیٹر کے اس فاصلے میں لوگوں کو پہاڑ جتنے گلیشیرز کاٹ کر بھی راستہ بنانا پڑتا تھا ۔ دو ہزار دس کے سیلاب میں جب یہ روڈ دریا برد ہوگیا تھا تو تب بھی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت روڈ بنایا ۔
میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ گاڑیاں مری کی بجائے کالام میں اس طرح پھنسی ہوتیں تو لوکل لوگ ان سیاحوں کو رات گاڑیوں میں گزارنے ہی نا دیتے اور انہیں اپنے گھروں میں لیجاتے ۔ میں یہ نہیں تسلیم کرسکتا کہ بحرین سے کالام تک روڈ پر ایک یا ایک سو گاڑیاں پھنس جائیں اور دور دراز کی وادیوں سے لوگ اتر کر ان سیاحوں کی مدد کو نا آئیں ۔
جیو پر ابھی ایک خاتون سیاح بتا رہی تھی کہ اس نے مری میں ساتھ آئے سانس کی تکلیف میں مبتلا ایک مریض کیلئے لوگوں سے گرم پانی کا ایک گلاس مانگا تو وہ ہیٹر اٹھا کر لے گئے اور پانی نہیں دیا ۔ سیاح مری والوں کی بے حِسی سے بلک کر رہ گئے ہیں ۔ جس کمرے میں باتھ روم تک نہیں وہ بھی پچیس ہزار رینٹ پر دیا گیا۔۔۔۔۔
مانا کہ کمرشلزم میں یہی ہوتا ہے اور پیسے بنانے والوں کیلئے پیسے سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہوتا ۔ لیکن جو کفر مری میں ہورہا ہے ایسا کالام والے کالام میں کبھی نا ہونے دیں ۔ کالام جتنا بھی کمرشل ہوجائے کالام کے لوگ کالام کے کاروباری ماحول کو اتنا بے حِس ہونے کبھی نا دینگے ۔ ویسے بھی کالام میں سیاحوں کیلئے "مہمان" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور آئے ہوئے لوگوں کو وہاں کوئی بھی ٹورسٹ یا سیاح نہیں کہتا ۔ اس لفظ میلمہ(مہمان) کیساتھ ایک پوری ثقافت جُڑی ہے جو مہمان کیلئے جان تک دینے پر یقین رکھتی ہے ۔ خدا نا کرے لیکن اگر سیاحوں کیساتھ ایسا کرائسز کالام یا بحرین میں پیدا ہو اور وہاں کے ہوٹل والے اس کرائسز میں سیاحوں کیساتھ ایسی زیادتی کرنا شروع کردیں تو لوکل لوگ ہوٹل والوں کا مار مار کر بھرکس نکال دینگے ۔ مری کے یہ کیسے بے حِس لوگ اور کیسے ہوٹل والے ہیں؟
اعجاز عدیم ۔ Ijaz Adeem
پانی چوس کنوئیں
تحریر۔ انجنئر ظفراقبال وٹو
بارش کا پانی صاف ترین پانی ہوتا ہے جسے ہم ذخیرہ کرکے اپنی ضروریات پوری کرنے کی بجائے فورا گٹر میں بہا دیتے ہیں اور پھر موٹر چلا کر یا ٹینکر خرید کر اوور ہیڈ ٹینکیاں بھر رہے ہوتے ہیں۔
دو تین ماہ سے بارش نہیں ہورہی تھیں تو ہم مالک سے خشک سالی ختم ہونے کی دعائیں کرہے تھے۔ اب جب بارشیں ہورہی ہیں تو ہم سارے صاف پانی سے گٹر بھر رہے ہیں اور پھر کچھ دن بعد پھر پانی کی کمی کا رونا رو رہے ہوں گے، ٹینکر والوں سے پانی خرید رہے ہوں گے، شہروں میں اربن فلڈنگ پر رو رہے ہوں گے یا پھر بلوچستان کی سیلابی ریلوں میں بہہ جانے والے جانوروں اور سامان کی ویڈیوز دیکھ کر افسوس کر رہے ہوں گے لیکن انفرادی یا اجتماعی سطح پر پانی کے اتنے وافر میسر ہونے والی نعمت کو محفوظ کرکے اس سے فائدہ اٹھانے اور اس کے نقصانات سے بچنے کے بارے میں کچھ نہیں سوچ رہے ہوں گے حالانکہ ہر سال مالک کی یہ نعمت ہم تک پہنچتی ہے۔
ہالینڈ میں ساٹھ کی دہائی میں ایک دفعہ بارش کے پانی سے سیلاب آنے سے ستر کے قریب افراد ہلاک ہوئے تو وہاں کی حکومت نے عہد کیا کہ آئندہ بارش کے پانی کے سیلاب سے ہالینڈ کا کوئی باشندہ ہلاک نہ ہونے پائے۔ زبردست منصوبہ بندی سے حفاظتی بند تعمیر کئے گئے جو ہزار سال تک کی بارش والے حجم کے سیلابی پانی کو ذخیرہ کر سکتے تھے اور اس کے بعد سیلاب وہاں کوئی بڑی تباہی نہیں مچا سکے اور تعمیر ہونے والے بند اور ڈیلٹا ورکس دنیا میں ایک مثال بن گئے ہیں۔
ہمارے ہاں ہر سال پانی کی کمی۔خشک سالی۔طوفانی بارشوں، سیلاب۔تباہی۔انسانی ہلاکتوں۔مکان اور مویشیوں کی ہلاکتوں، بارشوں کے پکوان۔ ساون کے جھولے۔ پھر دوبارہ پانی کی کمی ۔خشک سالی ۔ طوفانی بارشوں کا سائیکل چلتا ہے لیکن ہم پھر بھی اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتے حالانکہ انہی طوفانی بارشوں کے پانیوں کو ذخیرہ کو ہم اپنے لئے بہت بڑے موقع میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
ندی بالوں پر بند یا ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک میں بارش سے حاصل ہونے والے میٹھے پانی کا کم ازکم چالیس فی صد ذخیرہ کرنے کے لئے اسٹوریج ڈیم ہونے چاہئیں۔ ہمارے ہاں یہ تناسب ابھی دس فی صد تک بھی نہیں پہنچا جب کہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے ضروریات دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ہاس اپنی ضروریات کے لئے صرف تیس دن کے پانی کا ذخیرہ ہے جب کہ پڑوسی ہمسایہ ملک کے پاس کم ازکم سو دن پانی، جب کہ ان کی ضروریات بھی ہم سے کئی گنا زیادہ ہیں۔
ہمارے ہاں انفرادی طور پر گھروں ، دفتروں یا اسکولوں میں بھی بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی رواج نہیں ہے حالانکہ یہ پانی کسی بھی عمارت کی چھت، زمینی ٹینک یا انڈر گراونڈ ٹینک میں ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ گلی محلے یا سوسائٹی کی سطح پر کسی گراونڈ یا پارک میں بڑے بڑے ٹینک یاڈونگی گرانڈ بنا کر ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ان ٹینکوں کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بارش کے حجم کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔لہذا ایک اور اہم کام بارش کے پانی کو “پانی چوس “زمینی پانی میں شامل کرنا بھی ہو سکتا ہے جس سے زیرزمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی اور بارش کا پانی بھی ضائع نہیں ہوگا۔
شہری علاقوں میں پارکس، گرین بیلٹس یا گھروں کے لان میں “پانی چوس “ کنوئیں بنائے جاسکتے ہیں جو کہ “الٹے فلٹر “ کے اصول پر کام کرتے ہوئے بارش کے پانی کو چوس کر زیرزمین پانی سے ملا دیتے ہیں اور وہ بھی اسٹوریج ٹینک سے انتہائی کم لاگت پر۔ اس سے نہ صرف زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو سکتی ہے بلکہ پانی کی کوالٹی بھی بہتر ہوتی ہے۔
سادہ ترین الفاظ میں ہم بارش کا پانی پہلے ایک کوکیکشن ٹینک میں لاتے ہیں تاکہ اس کے اندر مٹی بیٹھ جائے اور پانی نتھر کر کنوئیں کے اوپر موجود دوسرے ٹینک میں آجاتا ہے جس کی تہہ میں فلٹر میٹیرئیل ڈالا گیا ہوتا ہے جس میں سب سے اوپر بڑے پتھر، پھر چھوٹے پتھر، پھر بجری اور ریت وغیرہ استعمال ہوتی ہے۔ فلٹر کے نیچے کچھ خاص تعداد میں اٹھارہ انچ یا چوبیس انچ کے پائپ ہوتے ہیں جو پانی کو زیرزمین پہنچاتے ہیں۔
پانی چوس کنوئیں وہ کم سے کم کام ہے جو ہم بارش کے کورے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے کر سکتے ہیں۔ اگر ہم پانی کو ڈیموں یا ٹینکوں میں ذخیرہ کرکے استعمال نہیں کرسکتے تو کم ازکم زمیں میں واپس لوٹا کر اپنے آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ تو کر سکتے ہیں۔ کیا ہم سب اپنی زندگی میں اپنے حصے کا پانی چوس کنواں نہیں بنا سکتے ؟
یہ تحریر Water Talkers واٹر ٹاکرز کے لئے لکھی گئی