نوشکی، سلطان سیاست کی آمد
یہ ہر کارکن جانتا ہے کہ جس جلسے میں امیر جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن صاحب شرکت کر رہے ہوں تو اس جلسے کا تیور ہی نرالا ہوتا ہے، عجیب سی خوشی پورے جسم میں پھیلتی ہے، ہر سو سر بکف متوالے سرور کی کیفیت سے سرشار ہوتے ہیں۔ اور پھر حسن جاناں کی تعریف میں ہر زبان ہمہ وقت رطب رہتی ہے۔ ہاں سب کا مشترکہ جاناں، جن کے ساتھ لاکھوں دلوں کی عقیدت کا دھاگہ جڑا رہتا ہے۔
خاص کر وہ لمحات تو احساسات و جذبات سے لبریز رہتے ہیں کہ جن میں مولانا کی آمد ہوتی ہے۔ اس وقت کی کیفیت کو شاید کوئی ادیب لفظ دینے میں کامیاب ہو سکے۔ کیوں کہ ہمارے ہاں عقیدت مندی کا جو سلسلہ ہے، گو یہ ہمیں وراثت میں ملا ہے۔ ہم چاہ کر بھی خود سے عقیدت پسندی کی چادر کو نہیں ہٹا سکتے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مولانا نے خود کو منوایا ہیں، وہ اس وقت اپنے چاہنے والوں کی رگ و پے میں بس چکے ہیں۔
کوئی لاکھ اختلاف کرے، مولانا کی صدارت کو وطن عزیز کے امیج کا مسئلہ بنا دیا جائے اور مولانا کو وطن عزیز کی سیاست کے لیے موزوں نا سمجھا جائے تاہم ان سب کو اس نقطے پر آنا ہوگا اور بیسیوں نامور لوگ آ بھی چکے ہیں کہ "مولانا پاکستان کی سیاست کا محور ہیں"۔ دو بڑے گھر والے (پ پ پ اور پ م ل ن) مولانا کو اپنی آخری امید سمجھتے ہیں۔ جب جب وہ بند گلی میں پھنس جاتے ہیں تب تب وہ اک چکر مولانا کے گھر کا لگا لیتے ہیں اور پھر جا کر اپنا فیصلہ سنا لیتے ہیں۔
اب جب مولانا ایک بڑی مدت بعد نوشکی جیسے ریگزار علاقے کا دورہ کر رہے ہیں تو نوشکی میں بسنے والے کئی جیالوں کے دلوں کا یقین ہی نہیں آ رہا کہ مولانا بھی نوشکی آئیں گے۔ در اصل یہ ان کی عقیدت ہے، احترام ہے، محبت ہے اور خوشی کی انتہائی کیفیت ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے؟ کہ "سلطان سیاست" بھی ہمارے غربت کدوں کا چکر لگائیں گے۔ وہ اس بات کو بعید از درایت سمجھتے ہیں۔ مگر مولانا آئیں گے اور بڑے اہتمام کے ساتھ آئیں گے، ان شاءاللہ
کاش!! اس وقت میرے والد گرامی رح حیات ہوتے تاکہ میں انھیں جلسہ گاہ لے جا کر انھیں مولانا کی تقریر سنواتا۔ کیوں کہ قبلہ والد رح کو مولانا کے ساتھ عشق کے درجے کی عقیدت تھی۔ اور مجھے چڑھتے سورج کی طرح یقین ہے کہ ابا حضور رح کو اگر یہ اطلاع ملتی کہ نوشکی کی سرزمین پر مولانا آرہے ہیں تو وہ ہر تہجد میں نام لے لے کر مولانا کی حفاظت کے لیے دعائیں کرتے اور ہر مجلس میں ان کا تذکرہ کرتے رہتے۔ کاش! ایک عاشق (والد) اپنے معشوق (مولانا) کی آمد کی خبر سنتے اور خوشی سے جھوم اٹھتے اے کاش!!
یوسف سعدی