2 yrs ·Translate

چار پانچ دہائیوں قبل نظام جو بھی تھا ، جب تک سلامت تھا تب تک ٹرین وقت پر چلوانا زیادہ سے زیادہ سپریٹنڈنٹ ریلوے کے دفتر کی ذمے داری تھی۔اب وزیر ریلوے کو کریڈٹ لینا پڑتا ہے کہ میں نے ٹرین وقت پر چلوا دی۔ایف آئی آر کٹوانے کے لیے محرر تک رسائی کافی تھی، اب اس کے لئے بھی کم ازکم وزیر درکار ہے۔کسی گھر یا اراضی کا قبضہ چھڑوانے کے لئے علاقے کے تحصیلدار یا اسسٹنٹ کمشنر لینڈز کے دفتر کے ایک دو چکر لگانا بہت تھا۔اب تو وزیراعظم بھی اپنے بہنوئی کا پلاٹ قبضے سے بازیاب کروانے کو عوام کو اپنی بے بسی سناتا ہے۔

پہلے تفتیش کا کام پولیس کے سپرد تھا اور کانسٹیبل کی رپورٹ کا سپریم کورٹ تک حوالہ جاتا تھا۔اب تفتیشی کام دیگر ادارے کرتے ہیں اور پولیس زیادہ تر ان اداروں کے ڈاک خانے کا کام کرتی ہے۔ اسپتال میں داخلے کے لیے میڈیکل سپریٹنڈنٹ کے دفتر سے ملنے والی سلپ کام کروا دیتی تھی، اب سیکریٹری ہیلتھ کو فون کرکے ایم ایس سے کہنا پڑتا ہے "یار مہربانی کرو، اس بندے کو وارڈ میں داخل کرلو"۔

پہلے کسی کو داخلہ دینا نہ دینا ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹریس کا اختیار تھا۔اب کسی اچھے اسکول میں داخلے کے لیے وزیر تعلیم کو سائل کے ہمراہ بندہ بھیجنا پڑتا ہے۔روزمرہ اشیاء کے نرخ اوقات میں رکھنے کے لیے بلدیہ کے پرائس کنٹرول انسپکٹر کا بازار سے گزر جانا بہت ہوتا تھا۔اب دودھ فروش اور قصابوں کی ایسوسی ایشن حکومت سے برابری کی بنیاد پر مشروط مذاکرات کرتی ہے اور وزیراعظم کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم کرنے کے لئے بازار کا اچانک دورہ کرنا پڑتا ہے۔

جب اس قدر ادھم ہو کہ یہی سجھائی نہ دے کہ کس اہلکار کے پاس کیا اختیار اور کتنی بے اختیاری ہے۔کون سے ادارے کی سرحد کہاں سے شروع ہو کے کہاں ختم ہوتی ہے۔جہاں ٹیلی فونی زبانی احکامات تحریری احکامات سے زیادہ اہم قرار پائیں۔جہاں کوئی اہل کار اوپر سے پوچھے بغیر تبادلے اور سرزنش کے ڈر سے سیدھا سیدھا ، اصولی ، قانونی اور درست معمولی سا فیصلہ کرنے پر بھی تیار نہ ہو۔جہاں ایک عام سے وکیل کی اوپر تک رسائی سے کسی عام عدالت کا جج پریشان ہو جائے اور ایک معمولی سب انسپکٹر کی غیر معمولی پہنچ سے آئی جی بھی گھبرائے۔تو پھر کونسا حسن انتظام ، کیسی جواب دہی ، کس کا احتساب ، کون سے قانون کی عمل داری ، کہاں کا میرٹ اور کس قدر عوام دوستی ؟

مگر ایسا نہیں کہ جو ریاستی مشینری کے کرنے کے اہم اور بنیادی اور بڑے کام ہیں وہ نہیں ہو رہے۔کوئی تو کر رہا ہے۔ تب ہی تو ریاست رواں ہے۔ ریورس گیئر میں ترقی کرتے ارضِ پاک پر وہ وقت آن پڑا ہے کہ اب پٹرول و بجلی کی قیمتیں گھٹانے کا اعلان وزارت پٹرولیم و وزارت توانائی کے سیکرٹریز بذریعہ نوٹیفکیشن نہیں کر رہے بلکہ وزیراعظم قوم سے خطاب میں کر رہا ہے اور اس کا کریڈٹ لے رہا ہے۔

ہاں ہاں یہ تو حاسدوں کی تنقید ہے۔ دیکھا جائے تو انصافی نقطہ نظر سے ایک با اختیار وزیراعظم حکومتی ریل کھینچنے کے لیے از حد ضروری ہے۔تو کیا وہ ہر وقت بڑے بڑے مسائل اور دور رس فیصلوں کے گرداب میں ہی اتنا الجھا رہے کہ اسے پٹرول بجلی کے بھاؤ معلوم کرنے کا بھی خیال نہ آئے ؟ ۔نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔