2 yrs ·Translate

ضرور پڑھیں۔۔۔

*اختلاف کیجئے ... مگر نفرت نہیں ... تنقید کیجئے مگر تنقیص نہیں*

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یہ واقعہ بہت مشہور ہے۔
*یونس الصدفی رح اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رح سے زیادہ عقلمند کسی کو نہیں پایا۔ ایک مرتبہ کسی مسئلہ میں میری ان سے بحث ہو گئی۔ بحث ختم ہونے کے بعد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے: اے ابو موسی ! اگرچہ ہمارے اور تمہارے درمیان کسی مسئلہ میں اختلاف ہے لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم آپس میں بھائی بن کر رہیں۔*

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
*اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کمال درجے کے عقلمند اور اپنے نفس کی خوب معرفت رکھنے والے تھے۔ اور اختلاف تو ہمیشہ ہمعصروں کے درمیان باقی رہا ہے۔*

((سير أعلام النبلاء)) للذهبي (10/16).
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
*میں نے جب بھی کسی سے بحث و مباحثہ کیا تو میری یہ خواہش رہی کہ میرا مخالف غلطی نہ کرے اور اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ جو علم میرے پاس ہے وہ ہر کسی کے پاس ہو اور وہ علم میری طرف منسوب نہ کیا جائے۔*

( آداب الشافعي ومناقبه )
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
*یقینا ہمارے اسلاف فروعی مسائل میں اختلاف رکھتے تھے تاہم اس کے باوجود ان کے مابین الفت و محبت اور باہمی تعلقات برقرار رہتے تھے۔*

((الفتاوى الكبرى)) لابن تيمية (6/92).

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

سلف صالحین کے یہاں اختلاف کا یہ تصور اور طریقہ تھا۔ بحث و مباحثے کا یہ ادب اور سلیقہ تھا اور وہ اسی تصور اور طریقے پر عمل پیرا تھے۔ ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ حق واضح ہونا چاہیے خواہ وہ میرے ذریعہ سے ہو یا کسی اور کے، اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا۔ خود علم و عمل کا سمندر ہوتے تھے مگر ایک دوسرے کے علم سے استفادے کے حریص ہوتے تھے۔ دوسرے کے سامنے تواضع و خاکساری کے ساتھ پیش آتے۔ اسی لئے ان کے درمیان الفت و محبت قائم تھی، تعلقات برقرار رہتے تھے، ان کے علم میں برکت تھی جو بولتے اور لکھتے وہ سند اور اعتبار کا درجہ رکھتی تھی اور اسی اخلاص کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی کتابوں اور ان کے اقوال کو وہ مقبولیت اور دوام بخشا کہ آج ہم انھیں پڑھ کر عش عش کرتے ہیں اور ان پر رشک کرتے ہیں اور ہماری زبان سے بے ساختہ ان کے لئے دعائیں نکلتی ہیں۔

امام مالک رحمہ اللہ کی کتاب مؤطا کے تعلق سے ایک واقعہ مشہور ہے جسے حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تدریب الراوي ميں بیان کیا ہے کہ امام مالک جب اپنی کتاب مؤطا لکھ رہے تھے تو لوگوں نے کہا : اس جیسی بہت ساری کتابیں لوگوں نے لکھ رکھی ہیں پھر آپ کی اس کتاب کا کیا فائدہ ہوگا؟
انھوں نے جواب دیا : "ما كان لله عزوجل بقي" یعنی جو کتاب اللہ جل جلالہ کے لئے لکھی گئی ہوگی وہ باقی رہے گی.

چنانچہ امر واقعہ یہی ہوا کہ اخلاص کی بدولت اللہ تعالی نے اس کتاب کو بقا و دوام بخشا اور اس نام کی دوسری کتابیں گمنامی کی نذر ہو گئیں.
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

جب نیتوں ميں اخلاص ہوتا ہے اور انسان حظوظ نفس کی آلائشوں سے پاک و صاف ہوتا ہے تو زبان و بیان اور تقریر و تحریر میں وہ تاثیر پیدا ہوتی ہے کہ خواہ اسلوب و انداز کیسا بھی ہو وہ باتیں جا کر دل و دماغ کے نہاخانوں میں بیٹھ جاتی ہیں اور ایسی باتوں کی تاثیر و افادیت وقتی نہیں بلکہ دیر پا ثابت ہوتی ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جو بات دل سے نکلتی ہے وہ دل کی گہرائی میں اتر جاتی ہے اور جو بات صرف زبان سے نکلتی ہے وہ ایک کان سے داخل ہو کر دوسرے کان سے نکل جاتی ہے.
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے۔ علامہ اقبال

حمدون القصار رحمه الله سے پوچھا گیا : کیا بات ہے سلف صالحین کی باتیں ہم سے زيادہ موثر اور نفع بخش ہوتی ہیں؟ انھوں نے جواب دیا : جب وہ بولتے تھے تو ان کی باتیں اسلام کی سربلندی، رحمٰن کی خوشنودی اور نفس کی نجات کے لئے ہوتی تهیں جب کہ ہماری باتیں (تقرریں اور تحریریں) نفس کی سربلندی، دنیا طلبی اور شہرت و ناموری کے لئے ہوتی ہیں. (المدخل إلى علم السنن للبيهقي 1/42)

اللہ تعالى ہم سب کو اپنا محاسبہ اور تزکیہ کرنے کی توفیق بخشے اور قول و عمل میں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے
اللهم آمين۔۔۔

image