موسیقی کی حلت و حرمت

رعایت اللہ فاروقی

June 27, 2022

کالم نگار سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔

موسیقی کے حوالے سے اہل علم میں ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے۔ ایک گروہ اس کے علی الاطلاق حرام ہونے کا قائل رہا ہے جبکہ دوسرے کا کہنا ہے کہ موسیقی اپنی ذات میں بری نہیں بلکہ کچھ آلائشیں ہیں جو اس کے ساتھ جڑ جائیں تو پھر یہ یقیناً ممنوع ہوجاتی ہے۔

حرام کہنے والے حضرات بطور دلیل قرآن مجید کی آیت نمبر 6 پیش کرتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے: 

ترجمہ: اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں۔ ، اور اس کا مذاق اڑائیں۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کرکے رکھ دے گا۔ (سورہ لقمان آیت نمبر 6)

وہ اس آیت سے استدلال تو کر لیتے ہیں لیکن یہ استدلال ٹک نہیں پاتا کیونکہ دعویٰ وہ یہ کرتے ہیں کہ مکہ کا مشرک تاجر نضر بن حارثہ موسیقی کے کنسرٹ منعقد کرتا تھا تاکہ لوگ رسول ﷺ کی طرف جانے کے بجائے ان کنسرٹس میں مشغول رہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں “حدیث” لفظ آیا ہے جو موسیقی کے معنیٰ میں کبھی بھی استعمال نہیں ہوا۔ گانے میں لے دے کر گلوکار کا گیت ہی ایسی چیز ہے جس کے لئے “حدیث” لفظ استعمال ہوسکتا ہے لیکن موسیقی کو حرام کہنے والے خود یہ کہتے اور لکھتے ہیں کہ اگر آلات موسیقی کے بغیر کوئی کلام گایا جائے تو وہ حلال ہے۔ گویا پورے آئیٹم میں جو چیز “حدیث” کہلانے کی گنجائش رکھتی ہے وہ تو ہوئی حلال اور ساز ہوگیا حرام، وہ بھی اس لفظ سے جو اس کے لئے استعمال ہی نہیں ہوتا۔

اگر بالفرض مان لیا جائے کہ یہ آیت گانے ہی کے حوالے سے نازل ہوئی ہے اور یہاں حدیث لفظ سے گانا ہی مراد ہے تو تب بھی یہ گانے کو مطلقاً حرام کہنے والوں سے زیادہ گانے کو کچھ آلائشوں کی شمولیت کی شرط کے ساتھ ناجائز کہنے والوں کی دلیل بنتی ہے کیونکہ “حدیث” لفظ مطلق نہیں آیا بلکہ “لھو” کی صفت کے ساتھ آیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہاں وہ گانا مراد ہے جو اپنے ساتھ کوئی برائی رکھتا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ آیت فی الواقع کس چیز کے بارے میں ہے اور یہاں “حدیث” سے کیا مراد ہے ؟ اس سوال کا جواب مفتی تقی عثمانی صاحب کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔

“قرآن کریم کی تاثیر ایسی تھی کہ جو لوگ ابھی ایمان نہیں لائے تھے وہ بھی چھپ چھپ کر قرآن کریم سنا کرتے تھے جس کے نتیجے میں بعض لوگ اسلام قبول بھی کر لیتے تھے۔ کافروں کے سردار اس صورتحال کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے اس لئے چاہتے تھے کہ قرآن کریم کے مقابلے میں کوئی ایسی دلچسپ صورت پیدا کریں کہ لوگ قرآن کریم کو سننا بند کردیں۔ اسی کوشش میں مکہ مکرمہ کا ایک تاجر نضر بن حارث جو اپنی تجارت کے لئے غیر ملکوں کا سفر کیا کرتا تھا ، ایران سے وہاں کے بادشاہوں کے قصوں پر مشتمل کتابیں خرید لایا، اور بعض روایات میں ہے کہ وہ وہاں سے ایک گانے والی کنیز بھی خرید لایا، اور لوگوں سے کہا کہ محمد ﷺ تمہیں عاد و ثمود کے قصے سناتے ہیں، میں تمہیں ان سے زیادہ دلچسپ قصے اور گانے سناؤنگا، چناچہ لوگ اس کے گرد اکٹھے ہونے لگے۔ یہ آیت اس واقعے کی طرف اشارہ کر رہی ہے، نیز اس میں یہ اصول بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ دل بھلانے کا مشغلہ جو انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل اور بے پروا کرے، ناجائز ہے۔ کھیل اور دل بھلانے کے صرف وہ مشغلے جائز ہیں جن میں کوئی فائدہ ہو، مثلاً جسمانی یا ذہنی ورزش، یاتھکن دور کرنا، اور جن کی وجہ سے نہ کسی کو تکلیف پہنچے ، اور نہ وہ انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل کرے۔ (توضیح القرآن۔ صفحہ نمبر 80

یہ وہ حاشیہ ہے جو مفتی تقی عثمانی صاحب نے سورہ لقمان کی مذکورہ بالا آیت پر لکھا ہے۔ اور جس میں گلو کارہ کا ذکر وہ ان الفاظ میں کرکے گزرگئے ہیں کہ “بعض روایات میں آتا ہے” اگر آیت موسیقی سے ہی متعلق ہوتی تو وہ مرکزی ذکر موسیقی کا کرتے اور قصے کہانیوں کی کتب کے لئے لکھتے “اور بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ قصے کہانیوں کی کتابیں بھی خرید لایا تھا” اور سب سے اہم بات یہ کہ لفظ “حدیث” کتابوں ہی سے جوڑ رکھتا ہے موسیقی سے نہیں۔

گانے کو مطلقاً حرام کہنے والے اہل علم کئی روایات بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں لیکن ان میں اکثر ضعیف روایات ہیں۔ ان کے پاس سب سے مضبوط روایت صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث ہے۔

ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے، جو بدکاری، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال ٹھہرا لیں گے۔ ان میں سے کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر واقع اپنے بنگلوں میں رہائش رکھیں گے اور جب کوئی ضرورت مند آدمی ان کے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے جائے گا تو کل آنے کا کہہ کر ٹال دیں گے۔ اللہ تعالیٰ رات کے وقت ہی ان پر پہاڑ کو گرا دے گا اور ایسے ہی کچھ اور لوگوں کو قیامت تک کےلئے بندر و خنزیر بنا دے گا (بخاری ، کتاب الاشربہ، حدیث 5268)

اس روایت کے جواب میں اہل علم کا دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ امام بخاری نے یہ روایت “کتاب الاشربہ” میں رکھ کر خود طے کردیا ہے کہ یہ روایت درحقیقت کس چیز کے بارے میں ہے اور دوسری بات یہ کہ اس روایت میں چار الگ الگ چیزوں کا ذکر نہیں بلکہ یہاں ایک پیکج کا ذکر کیا جارہا ہے جسے “ڈانس پارٹی” کہتے ہیں، جس میں یہ چاروں چیزیں زوروں پر ہوتی ہیں اور جو مالدار قسم کے عیاش لوگ ہر زمانے میں کرتے رہے ہیں چنانچہ اس روایت میں بھی پوری صراحت کے ساتھ ان مالدار عیاشوں کا نہ صرف ذکر ہے بلکہ ان کی ان مشہور علامات بھی بیان کی گئی ہیں ۔ یہ علامات آج کے دور میں سب سے زیادہ واضح نظر آتی ہیں یعنی وہ لوگ جو پہاڑیوں پر سینکڑوں کنال کی کوٹھیاں بنا کر رہتے ہیں اور جب کوئی غریب ان کے پاس اپنی کسی ضرورت کے تحت جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں ۔

“معاف کرو بابا