Monday 4th July 2022 / 4 Zulhijjah 1443

تازہ ترین
اداریہ/کالمز
نقطۂ نظر
شوبز
ENG
پاکستان کا دوسرا رخ
پہلا صفحہ » اداریہ-کالمز » کالمز » حکومت جھوٹ بولنا بند کرے

حکومت جھوٹ بولنا بند کرے
رعایت اللہ فاروقی
July 4, 2022
کالم نگار سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے میمن سیٹھ یعنی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل خود بے یقینی کا شکار نظر آتے ہیں۔اور ہم یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ ملک میں پھیلی بے یقینی کو ختم کرکے معاشی بحران پر قابو پائیں گے۔
شہباز شریف کے بیانات اور باڈی لینگویج دیکھ یہی لگتا ہے کہ وہ روز خود کو چٹکیاں بھر بھر کر یقین حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ خواب تو نہیں دیکھ رہے؟ کیا یہ سچ ہے کہ وہ وزیر اعظم بن چکے ہیں؟ مگر یقین ہے کہ آکر نہیں دیتا۔ مفتاح اسماعیل کا چٹکیوں والا دور شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں گزر چکا مگر وزیر اعظم کی بے یقینی دیکھ کر خود وہ بھی کنفیوز نظر آتے ہیں۔ اوپر سے ملک کے معاشی مسائل کے سنگین ہونے کے پیش نظر مفتاح اسماعیل ہی وہ وزیر ہیں جنہیں شہباز شریف کے سب سے زیادہ قریب رہنا پڑ رہا ہے۔
شہباز شریف یہ بات اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز سے ہی جانتے تھے کہ ان کا وزیر اعظم بننے کا امکان بہت ہی موہوم ہے۔ جب تک بھائی جان زندہ ہیں، انہیں نائب کپتان ہی رہنا ہے۔ وجہ اس کی یہ رہی کہ اقتدار کے لئے بھائیوں نے بیشک بھائیوں کے گلے کاٹے ہیں مگر شریف خاندان، خاندانِ مغلیہ سے یکسر مختلف ہے۔ اپنے بھائی کی کامل اطاعت و فرمانبرداری ہی وہ واحد وجہ ہے جس کے ہوتے ان کے وزیر اعظم بننے کی امید ہمیشہ موہوم رہی ہے۔ ورنہ آفر تو انہیں غلام اسحاق خان نے یہی سوچ کر کی تھی کہ اس بار بھی بھائی اقتدار کے لئے بھائی کا گلا کاٹتا نظر آئے گا۔
اسی وفاداری کے سبب وہ نواز شریف کے لئے اتنے اہم رہے کہ انہیں چوہدری نثار کا قریبی دوست بنا کر اس بات کا اہتمام کر ڈالا کہ چکری کبھی چکر نہ دے پائے۔ یہ اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ گیٹ نمبر چار پر چکری بادشاہ کبھی بھی اکیلا نہ دیکھا گیا۔ جب دکھا شہباز سمیت دکھا۔
نواز شریف کے ہوتے شہباز شریف کا وزیر اعظم بننا ناممکن ہونے کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ 2018ء میں نون لیگ کو آؤٹ کرنا اسٹیبلیشمنٹ کا ایجنڈا نہ تھا۔ وہ صرف نواز شریف کو آؤٹ کرنا چاہتی تھی۔ شہباز شریف ان کے سپر فیوریٹ تھے سو بطور وزیر اعظم وہ اسٹیبلیشمنٹ کو صرف قبول ہی نہ تھے بلکہ ان کی وزارت عظمی اسٹیبلیشمنٹ کی اشد خواہش تھی۔ مگر نواز شریف نے یہ ہونے نہ دیا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف کے لئے نون لیگ کا نہیں بلکہ ذاتی اقتدار اولین ترجیح تھا۔
اب اسی نواز شریف کے ہوتے شہباز وزیر اعظم ہیں تو انہیں یہ سب ناقابل یقین تو لگے گا۔ مگر مسئلہ صرف یہ نہیں کہ انہیں اپنے وزیر اعظم ہونے کا یقین نہیں آرہا۔ بلکہ اس کا نتیجہ زیادہ سنگین ہے جو یہ ہے کہ خود وزیر اعظم اور ان کے سب سے قریبی وزیر مفتاح اسماعیل ایک تسلسل کے ساتھ متضاد باتیں کر رہے ہیں۔
ایک دن کہتے ہیں، بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ دو دن بعد کہتے ہیں، حالات سنبھلنے میں وقت لگے گا، یہ سب اتنی جلدی ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ ایک دن کہتے ہیں پیٹرول کی قیمت نہیں بڑھے گی۔ دو دن بعد فرماتے ہیں پیٹرول کی قیمت بڑھائے بغیر چارہ نہیں۔ ایک دن کہتے ہیں مشکل فیصلوں کا اثر غریب پر نہیں پڑنے دیں گے۔ اگلے دن لیزر گائڈڈ بم تاک کر غریب کی جھونپڑی پر ہی پھینکتے ہیں اور حماقت کی حد دیکھئے کہ مفتاح اسماعیل پیٹرول کی قیمت بڑھانے کی خوشخبری دینے بذات خود یوں ٹی وی پر آئے جیسے تیل کا سعودی عرب سے بھی چار گنا بڑا ذخیرہ دریافت ہونے کی خوشخبری دینے آئے ہوں۔
اور پھر اگلے دن فرماتے ہیں، مجھے تیل کی قیمت بڑھانے کی خبر خود ٹی وی پر آکر نہیں دینی چاہئے تھی۔ اس میمن سیٹھ کو شیخ سعدی اور واصف علی واصف دنوں کے اقوال زریں پر مشتمل کتب تحفے میں دینی چاہئیں تاکہ کم از کم اتنا تو جان سکیں کہ سوچنا پہلے ہوتا ہے کرنا بعد میں۔ جو اس ترتیب کو الٹ دیں وہ ہر چیز الٹ کر رکھ دیتے ہیں۔
شاید لندن میں بیٹھے نواز شریف کو بھی اندازہ ہوگیا ہے پنجاب کا “منیجر شریف” اور ان کا منشی مل کر نون لیگ کا بھٹہ ہی بٹھا دیں گے۔ چنانچہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی واپسی کی خبریں زوروں پر ہیں۔ ہر چند کہ اس خبر سے منیجر شریف کے حلقے میں ہلچل ہے مگر سچ پوچھئے تو اسحق ڈار کی واپسی اس لحاظ سے بہت ضروری ہے کہ 2013 سے 2017 کے مابین نواز شریف اور اسحق ڈار دونوں کی سوچ، بیانات اور اقدامات میں ایک تسلسل تھا۔
ان دونوں نے کبھی ایسی بات نہ کی جس سے خود ان کے ہی کنفیوز ہونے کا پتہ نہ چلا ہو بلکہ قوم کو بھی کنفیوز کر بیٹھے ہوں۔ وہ بھی ایک مشکل ترین وقت میں اقتدار میں آئے تھے۔ چیلنجز بہت سے تھے مگر ان میں سے تین تو بہت بڑے تھے۔ دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ اور سی این جی اسٹیشنز پر لگی میلوں طویل قطاریں۔
اسحاق ڈار اور نواز شریف کی جوڑی نے اس حوالے سے ایک ٹھوس لائحہ عمل کے ساتھ نہایت پر یقین لہجے میں قوم سے کہا کہ ان چیلنجز سے ہم نمٹ لیں گے۔ اور کون کافر انکار کرسکتا ہے کہ جب ان دونوں کو جبری طور پر اقتدار سے نکالا گیا تو یہ ان تینوں ہی چیلنجز سے نمٹ چکے تھے۔
سوال یہ ہے کہ وہ کامیاب کیوں رہے تھے؟ جواب یہ ہے کہ انہیں مسائل کا بھی اچھی طرح ادراک تھا اور اس کا حل بھی ان کے پاس موجود تھا اور ہر مسئلے کا متعلقہ حل اتنا کامل تھا کہ نواز شریف اور اسحاق ڈار بات کرتے تو ان کے لہجے کا یقین محکم قوم کو بھی اعتماد سے بھر دیتا تھا۔ذرا سوچئے، ملک سنگین مسائل سے دوچار ہو اور ان مسائل سے نمٹنا جن کی ذمہ داری ہو ان کا لہجہ ہی اعتماد سے خالی نہ ہو بلکہ ان کی باتیں بھی متضاد ہوں تو قوم کا اعتماد کیسے بحال ہوسکتا ہے؟
کیا کسی نے اب تک شہباز شریف، مفتاح اسماعیل یا وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب سے کسی ایسے روڈ میپ کا ذکر سنا جس میں بتایا گیا ہو کہ ملک کو درپیش مسائل کے حل کیلئے کن مرحلہ وار اقدامات کا ارادہ ہے اور ان اقدمات کے نتائج کب کیا