معاشی بدمعاشی

پاکستان کو معاشی طور تباہ کرنے کے لئے وہ سب قصوروار ہاتھ کاٹ دینے ضروعی ہیں تبھی ہم آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل کر پائیں گے.

 

ہم تیسری دنیا کے لوگ ایک عرصہ سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے۔

جب بھی ہم سر اٹھانے کی کوشش کرتے ہمیں کچلنے کے لئے کبھی یورپی یونین کبھی راج برطانیہ کی صورت کوئی نا کوئی ہتھوڑا موجود رہتا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے اقتدار پر قابض لوگ ہوا اقتدار میں ایسے اندھے ہوتے کہ وہ خود اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پہلے سے پسماندہ ملک کو مزید پسماندگی کے تحفے دینے سے باز نہیں آتے۔

 1950 میں آئی ایم ایف کا ممبر بننے کے بعد سے 2019 تک ملک پاکستان کو بائیس مرتبہ آئی ایم ایف کی مدد لینا پڑی۔ سب سے پہلا قرضہ 1958 میں لیا گیا جو آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت

 SRA  کی کیٹگری میں لیا گیا۔

SRA Standby Relief Arrangement

دراصل بیل آؤٹ پیکج ہوتا جو غریب ممالک کو دیا جاتا تاکہ فوری طور معاشی صورتحال کو بہتر کیا جا سکے۔ اور پاکستان کو یہ بیل آؤٹ پیکج تیرہ بار دیا گیا۔ دوسری بار 1965 کی جنگ کے بعد ہمیں جنگ کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے مدد کی ضرورت پڑی تو ہم آئی ایم ایف کے در کے بھکاری بنے۔

اس کے بعد

 1971, 1972, 1973, 1975, 1977, 1980

دس سال میں چھ بار ہمیں ضرورت رہی اور ہم بار بار آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکنے رہے۔

اس سے آگے نہیں جاؤں گی، نا ہی کوئی لمبے چوڑے fiscal debt  اور سکانومی ماڈلز کی بات کرتی ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ غلطی کدھر ہوئی؟

ایسا کیا ہوا کہ اسلامی نظریاتی رہاست، جسے ریاست مدینہ کے ماڈل پر پہلے دن تعمیر ہونا تھا کے لئے آج ریاست مدینہ ایک استہزاء کے طور پر استعمال کیا جا رہا۔

ریاست مدینہ میں انصار اور مہاجرین کے ایثار کی داستانوں عام کی گئیں کیا ہم یہ کر پائے؟

ریاست مدینہ میں ہر انسان چاہے وہ حکمران تھا یا رعایا نے اپنے پیٹ ہر پتھر باندھ کر کام کیا، کیا ہمارے حکمرانوں نے یہ سب کیا؟

ریاست مدینہ میں انصاف کی چکی بہت باریک پیستی رہی، امیر و غریب پر ہکداں۶، ہمارا انصاف اس کے ہم پلہ بن پایا 1980 تک؟؟

ریاست مدینہ میں اقتدار کی ہوش لے بجائے اسلام کی خاطر لڑائی ہوئی جب بھی ہوئی، کیا ہماری پہلی تین جنگوں میں اسلام کا شائبہ نظر آیا؟

خود احتسابی کیجئے، قبل اس کے کہ آپ کے وجود کو یکسر خاک میں ملا دیا جائے۔ دشمن قوتیں تو ہمیشہ سے پاکستان کے وجود کے خاتمہ کی خواہاں رہیں، 1947 میں مسلم اکثریتی علاقوں کی حد بندیوں میں گھپلوں کی بات ہو یا 1948 میں کشمیر ہر ناجائز قبضہ، 65ء میں اندرونی و بیرونی غلط فیصلے ہوں یا 71ء کی ریشہ دوانیاں، سوویت یونین کا افغانستان کے ذریعہ سے دباؤ، یا امریکہ کا پاکستان میں بلیک واٹر تنظیم سے لے کر آج بہت سے اندرونی میر جعفر۔۔ ہر کہانی منتج ہو رہی پاکستان کے وجود کو کسی طرح ختم کیا جائے۔

حالیہ یورپی یونین  کی پابندیاں لگانے کے حوالہ سے قرارداد ہمارے لئے کوئی نئی نہیں، مئیاٹگائیس کے بعد بھی ہم پر ایسی ہی پابندیاں لگائی گئی تھیں، کہ نوکر منہ کو کیوں آ رہا۔ اس سب معاشی بد معاشی کے بیچ میں کہیں نا کہیں ہمارے اپنوں کی غلطیوں کے انبار ہیں۔

نا ہم آج ایم ایف کے چنگل میں پھنستے نا ہمیں اپنی معاشی پالیسیوں ہر دوسروں کا،اتنا اثر اور دباؤ جھیلنا پڑتا ۔ اسلام پر تو کوئی کمپرومائز ممکن ہی نہخں، ارباب اختیار سے صرف ایک بات پوچھنے کی جسارت ہے کہ سب اشرافیہ جو آئے روز بیان بازی کرتے رہتے، اس معاشی دباؤ میں اپنے سب اثاثے فروخت کر کے تمام سرمایہ کاری پاکستان منتقل کر پائیں گے؟

کیا یہ سب اپنے بزنس کو بیرون ملک سے پاکستان منتقل کر کے پاکستان کو مستحکم بنانے کا کام نہیں کر سکتے؟

دبئی کریک سے دبئی میرینا، اور کام جمیرہ میں فلیٹ ہوں یا لندن میں بزنس یس پلانٹس فرانس کے محلات سے لے کر اسرائیل سے کاروباری روابط، کیا وہ پاکستان کو اپنی ترجیحات میں اولیں قرار دے سکتے؟

 ۔ اور ہم سب جانتے ایسا نہیں یوگا، ہم بحیثیت قوم بے حس اور خود غرض ہو چکے۔ اس لئے یورپی یونین پر طنز اور اس کی تضحیک کے بجائے اپنی معاشرتی اصلاح پر کام کیجیے، اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا شروع کریں۔ تمام قرضے ختم کریں تاکہ خود داری سے عشق رسالت کا مقدمہ بھی لڑیں اور معاشی بد معاشی کا شکار بھی نا ہوں۔


humera ilyas

4 Blog posts

Comments
Gul Khan 2 yrs

Nice But Long