مرشد سے ملاقات کا بندوبست
ہمیشہ کی طرح ملک ایک نہایت ہی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ جہاں ایک درویش صفت، باکردار، حسین و جمیل، شعلہ بیان، اور دلیرحکمران جس کو دنیا خان کے نام سے جانتی ہے وہ برسر اقتدار ہے۔ خان صاحب کی سیاست کو سمجھنے کیلئے مجھے اپنے مرشد صاحب کی خدمت میں حاظر ہونا پڑتا ہے۔ کل سے جو تماشہ چل رہا ہے اس سے تنگ آ کر نہ چاہتے ہوئے مرشد سے واٹس ایپ پر وقت مانگا تو ان کا محبت بھرا جواب ملا کہ جمعہ کی نماز پڑھ کر سو جانا اور آج ہم خواب میں ہی ملاقات کرتے ہیں۔
آنکھیں بند ہونے کی دیر تھی کہ اپنے آپ کو مرشد کے ڈیرے پر پایا۔ دھواں کچھ زیادہ تھا۔ کچھ غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ آج تین حقے/شیشے اکھٹے چل رہے تھے۔ میرے داخل ہوتے ہی آنکھوں کے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلا لیا۔ میں نے پاس بیٹھتے ہوئے کہا کہ مرشد بڑی قسمت ہے ہماری کہ ہم آپ کی محبت سے “فیض یاب” ہو پاتے ہیں۔ فرمانے لگے “آہستہ بولو فیض کا نام کسی بھی شکل میں لینے سے پنڈی والے ناراض ہوتے ہیں۔” اثبات میں سر ہلایا اور عرض کی کہ جناب یہ کل ایکدم اتنے ایم این اے کہاں نکل کھڑے ہوئے ہیں؟ فرمانے لگے “کچھ معصوم لوگوں (ایم این ایز) کو سندھ کے حکمرانوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔” تاریخ گواہ ہے کہ برسوں پہلے جب سندھ کے ظالم حکمران نے معصوموں کو یرغمال بنایا تھا تو محمد بن قاسم نے ایک ایسا یُدھ لڑا تھا کہ دشمن کی لنکا ڈوب گئی اور اس خطے میں اسلام کو بچا لیا گیا۔ آج پھر ہمیں ایک ایسے حملے کی ضرورت ہے جہاں ان یرغمال لوگوں کو بچایا جائے۔ اس دفعہ سندھ پر حملے کیلئے ولی الوقت نے “جٹ برادری” کے چشم وچراغ شہباز گل اور فواد چودھری کا انتخاب کیا ہے۔ جیسے قاسم نے سندھ کی بندرگاہ پر حملہ کر کے اسلام کو بچا لیا تھا بالکل ویسے ہی آج گل نے سندھ ہاؤس پر حملہ کر کے اسلام آباد کو بچا لینا ہے۔” ان کی یہ باتیں سُن کر میں ششدر رہ گیا۔ کیونکہ میں نے تو ایسا کچھ سوچا ہی نہ تھا۔ انہوں نے اپنے شیشے کا رخ میری جانب کیا اور میں نے ادب سے اسے تھام کر ایک لمبا سوٹا لگایا۔ اس کے ساتھ ہی میرے بند دماغ کی گڑھیں مزید کھلنے لگیں۔ پیر و مرشد نے حاجت کیلئے جانا تھا، لہذا انہوں نے ایک جانب رکھے موجود بلے کے ساتھ پڑے بہت سے لوٹوں میں سے ایک لوٹا اٹھایا اور بوٹ پہن کر حمام کی جانب چلے گئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان کے آرائیں جو اکثر خود کو محمد بن قاسم کے قبیلے سے جوڑتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں، وہ یقیناً پریشان ہوں گے۔ کیونکہ اب تو جٹ برادری یہ اعزاز بھی آرائیوں سے چھین لئے گی!
اتنی دیر میں پیر و مرشد حمام سے واپس آئے اور کارپٹ پر آنے کیلئے انہوں نے اپنے بوٹ اتارے۔ اس دوران انہوں نے خالی لوٹا بھی وہاں رکھ دیا تھا۔ پھر ایک بوٹ اٹھا کر انہوں نے لوٹے کو بوٹ سے کھینچ کر ایک لگائی۔ آپ یقین کریں لوٹا تیزی سے گھومتے ہوئے دوسری جانب موجود بہت سے لوٹوں میں جا گھسا۔ بوٹ کی چوٹ ایسی تیز تھی کہ تمام لوٹے کھسک کر دوسری جانب ہو چکے تھے۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ لوٹوں کے عین اوپر موجود گھڑی پونے تین بجا رہی تھی۔ ایک لمحے کو ایسا لگا کہ وقت نہیں بلکہ “تیر” کا نشان ہے۔ مرشد نے بیٹھتے ہوئے کہا کہ ویسے تم بہت شرارتی ہو گئے ہو۔ میں نے حیرت اور ادب سے پوچھا “حضرت ناچیز نے کوئی گُستاخی کر دی کیا؟” فرمانے لگے “ارے میاں یہ جو کل تم سندھی لباس پہنے پاکستان کا جھنڈا تھامے کھڑے تھے تمہیں کیا لگتا کہ مجھے اس میں موجود سیاسی پیغام نظر نہ آئے گا” اپنی ہنسی اور ندامت کو چھپا ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی نے اٹھا دیا۔ قیصر کا فون تھا اور پوچھ رہا تھا کہ یار یہ پی ٹی آئی والوں نے سندھ ہاؤس پر حملہ کر دیا ہے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ۔۔۔۔